انجینئرنگ اسکول میں جمع تفریق اور پراسرار سسکی

گزشتہ ہفتے کراچی میں خاصہ ہنگامہ رہا۔ خیر گزری کہ لاشیں نہیں گریں۔ کراچی شہر نے تیس برس میں بہت لاشیں اٹھائی ہیں۔ سیاست زندہ لوگوں کے مکالمے کا نام ہے۔ موت مکالمہ نہیں کرتی۔ تابوت سمجھوتہ نہیں کرتے۔ ہم نے وہ وقت بھی دیکھا کہ کراچی میں چالیس سے زیادہ لاشیں ایک روز میں گری تھیں۔ آدھے درجن وکیل اپنے دفتروں میں جلا دئیے گئے تھے۔ صحافی اپنی میز کے نیچے پناہ لے کر ہنگامے کی رپورٹنگ کر رہا تھا۔ اس شام ملک کے خود ساختہ حکمران نے اسلام آباد میں ایک مارے باندھے ہجوم کے سامنے مٹھیاں لہرا کے اپنی طاقت کا اعلان کیا تھا۔ کراچی دہائیوں پر پھیلے کشت و خون سے گزر کے یہاں تک تو آیا کہ پریس کانفرنس کے ذریعے اختلاف کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایک فریق نے شہدا کے قبرستان میں حاضری دی اور دوسرے فریق نے اعلان کیا کہ سیاسی اختلاف میں تشدد کا راستہ نہیں اپنایا جائے گا۔ بہتری کا یہ نشان جس کے طفیل بھی نمودار ہوا ہو، اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ پہلے روز مصطفی کمال نے فاروق ستار سے مل کر پریس کانفرنس کی۔ سیاسی کارکنوں کے اجتماع میں ایک فریق سیاسی رہنما ہوتے ہیں اور دوسرا فریق موقع پر موجود سیاسی کارکن ہوتے ہیں۔ ایک تیسرا فریق سب سے اہم ہوتا ہے، عوام جن کے نام پہ سیاست کی جاتی ہے۔ جمہوری سیاست ان تین اکائیوں میں ان دیکھے تعلق سے جنم لیتی ہے۔ مصطفی کمال اور فاروق ستار کی مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ ان دیکھی رو مفتود تھی۔ رہنما اپنے کارکنوں سے آنکھ ملانے سے گریزاں تھے۔ اگلے روز فاروق ستار نے الگ سے پریس کانفرنس کی۔ تفصیل ہم سب جانتے ہیں۔ بہت کچھ کہا گیا اور کچھ حقائق کا محض اشارہ دیا گیا۔ مصطفی کمال نے اس سے اگلے روز اشاروں کا تکلف اٹھا دیا۔ صاف صاف کہہ دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے ملاقات ہوئی تھی۔ مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کا یہ انکشاف اب اسی طرح اوجھل ہو جائے گا جیسے 1995ء میں عبدالستار ایدھی نے دو ہفتے تک لندن میں قیام کے بعد واپس آ کر بتایا تھا کہ عمران خان اور جنرل حمید گل انہیں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔

ہماری سیاست میں دباؤ کی تاریخ دلچسپ ہے۔ جنہیں دباؤ کا سامنا کبھی نہیں ہوا وہ ٹھیک سے نہیں بتا سکتے کہ دباؤ جسمانی عقوبت میں پایا جاتا ہے یا دھمکی میں ملفوف ہوتا ہے۔ دباؤ ایک شہری کی نارسائی سے کشید کیا جاتا ہے یا قانون کی بے بسی سے اخذ کیا جاتا ہے۔ فاروق ستار نے اپنی پریس کانفرنس میں سیاسی انجینئرنگ کا لفظ استعمال کیا۔ مصطفی کمال نے اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح بار بار دہرائی۔ یہ معلوم کرنا ابھی باقی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسے کہتے ہیں اور پاکستان کے دستور میں اس کا ذکر کیوں نہیں ہے۔ کیا ہمارے دستور میں کوئی خامی ہے کہ اس کی کسی شق میں اسٹیبلشمنٹ کی تعریف اور اس کا کردار متعین نہیں کیے گئے۔ دستور کے پابند شہریوں کو کیسے معلوم ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ کب اور کیوں ناراض ہوتی ہے؟ ادھر عمران خان صاحب نے سیاسی حریفوں کی فہرست تھام رکھی ہے۔ وقفے وقفے سے اعلان کرتے ہیں کہ فلاں کی سیاست دفن کر دی۔ اب فلاں کو دفن کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ کفن دفن کا یہ پیرایہ اظہار تو 1990 کے انتخابات میں مرحوم غلام اسحاق خان نے اختیار کیا تھا۔ 24 اکتوبر 1990 کی شام الیکشن کمیشن کا دورہ کرتے ہوئے صحافیوں سے کہا کہ "ہم نے نہلا دیا ہے، کفن پہنا دیا ہے، دفن کر دیا ہے”۔ سیاست ایسے تھوڑی دفن ہوتی ہے۔ سیاست کے پیر مغاں نے جسے دفن کرنے کا اعلان کیا تھا، وہ مردہ 2012ء میں پھر زندہ ہوا۔ سپریم کورٹ نے اکتوبر 2012ء میں جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کو یونس حبیب سے ملنے والے کروڑوں روپے رشوت میں دے کے آئی جے آئی بنانے کا مرتکب ٹھہرایا۔ ظاہر ہے کہ تکفین و تدفین کے شائق غلام اسحاق خان اپنی ناک کے نیچے لوبان اور کافور کی خرید و فروخت سے بے خبر تو نہیں تھے۔ عجیب نامسعود اتفاق ہے کہ 1993ء سے ہم نے آئی جے آئی کا نام دوبارہ نہیں سنا۔ کٹی پھٹی پیپلز پارٹی جیسی بھی ہے، سیاسی منظر پہ موجود ہے۔ رواں ماہ تیس تاریخ کو پیپلز پارٹی کی تاسیس کے پچاس برس مکمل ہو جائیں گے۔ وجہ سادہ ہے۔ مارنے والا ریاستی منصب اور معیادی اختیار کی مدد سے مصوری کرنا چاہتا ہے۔ سیاست کا منظر عوام کی امنگوں سے تشکیل پاتا ہے۔ عوام کے بارے میں فیض نے کہا تھا، اٹھے گا انا الحق کا نعرہ، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو…

ہمارے ملک میں سیاسی انجینئرنگ کی پہلی تمثیل اپریل 1955 میں اسکندر مرزا نے پیش کی۔ ون یونٹ کے چنیدہ پرندوں کو اقتدار میں رکھنے کے لیے راتوں رات ریپبلکن پارٹی تشکیل دی تھی۔ ڈاکٹر خان صاحب مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ اور چوہدری فضل الہٰی اسمبلی کے اسپیکر بن گئے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس کشمکش میں شکست کھانے والا عبدالرب نشتر پاکستان کی تاریخ میں محترم مقام رکھتا ہے۔ اب کسی کو ریپبلکن پارٹی یاد ہے اور نہ اسکندر مرزا۔ ہم نے کہیں پڑھ رکھا ہے کہ قوم اور صحافت کا عروج و زوال ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہوتا ہے۔ جاننا چاہئے کہ سیاسی انجینئرنگ کا جہاز بھی اپنے خالق کے ساتھ ہی ڈوب جاتا ہے جیسے کنونشن لیگ ایوب خان کے ساتھ ہی سمندر میں غرق ہو گئی۔

سیاسی انجینئرنگ میں خصوصی تربیت یافتہ دست کاروں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ اہل حرفہ کاغذ پہ لکیریں کھینچ سکتے ہیں۔ بند دروازوں کے پیچھے جوڑ توڑ کر سکتے ہیں۔ انہیں رائے عامہ اور تاریخ کے بہاؤ سے غرض نہیں ہوتی۔ انہیں دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ دریا پر پل باندھ سکتے ہیں۔ مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ان کا دریا ایک اور دریا پر ختم ہوتا ہے۔ اور ان کا تعمیر کردہ پل ہوا میں معلق رہ جاتا ہے۔ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں شکست دے کر جو رسوائی مول لی، اسے دھونے کے لیے آپریشن جبرالٹر کیا۔ اس آپریشن کے نتائج تاشقند کی میز پر سامنے آئے تو شیخ مجیب الرحمن کے ہاتھ میں چھ نکات تھما دئیے۔ لاہور کی مال روڈ پر جنرل ایوب خان کے نام کا پٹہ بے زبان جانوروں کے گلے میں لٹکانے کا کام آغا محمد علی نے کیا تھا جو یحییٰ خان کے بھائی تھے۔ ستر کے انتخابات میں این اے رضوی اور جنرل غلام عمر نے انتخابی انجینئرنگ میں کروڑوں روپے صرف کیے لیکن ڈھاکہ کا میر پور پل عبور نہ کر سکے۔ قصہ یہ ہے کہ سیاسی انجینئرنگ مقبول سیاسی قیادت کو مائنس کرنے کے انہدامی نصب العین کی اسیر ہوتی ہے۔ کبھی شیخ مجیب الرحمن کو مائنس کیا جاتا ہے تو کبھی ذوالفقار علی بھٹو کو، کبھی لیاقت علی خان کو مائنس کیا جاتا ہے تو کبھی بے نظیر بھٹو کو۔ کبھی نواز شریف کو مائنس کرنے کا بیڑہ اٹھایا جاتا ہے تو کبھی… ایک اخباری ادارے ہی کو ذوق نفی کے نشانے پر رکھ لیا جاتا ہے۔ سیاسی قیادت کو مائنس کرنے کے لیے غیر سیاسی صفر جمع کیے جاتے ہیں۔ کبھی نو ستارے جمع کر لیے تو کبھی تیئس جماعتی اتحاد بنا لیا۔ یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ ملک کی تیئس سیاسی جماعتیں کس ارض بلد پر سکونت پذیر ہیں۔ اس اتحاد کا رہنما تو معیادی کمر درد کے باعث بیرون ملک مقیم ہے۔ جاننا چاہیے کہ سیاسی انجینئرنگ جمع تفریق کے کام کو ٹھیک سے نہیں سمجھتی، اسی لیے ہماری تاریخ میں مسلسل قبرستانی ہوا کی پراسرار سسکی سنائی دیتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے