’میانمار فوج روہنگیا خواتین کے ساتھ گینگ ریپ میں ملوث‘ اقوام متحدہ کی رپورٹ

ڈھاکا: اقوام متحدہ کے خصوصی وفد نے الزام لگایا ہے کہ میانمار کی فوج نے ‘منظم طریقے سے’ مسلمان اقلیت سے تعلق رکھنے والی روہنگیا خواتین کو تشدد واقعات میں گینگ ریپ کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے وہ بنگلہ دیش کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئیں۔

جنسی طور پر ہراساں کرنے کے تنازعات کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سیکریٹری جنرل پرمیلا پاٹن نے بنگلہ دیش کے ضلع کوز بازار کا دورہ کیا، جہاں 6 لاکھ 10 ہزار روہنگیا پناہ گزین موجود ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے (اے ایف پی) کے مطابق دورے کے بعد پرمیلا پاٹن نے صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس طرح کے واقعات انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہیں۔

انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ‘دورے کے دوران میں نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کئی المناک کہانیاں سنیں جن میں سے کئی خواتین اور لڑکیاں ریپ کا نشانہ بننے کی وجہ سے ہلاک ہو چکی ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس المناک واقعات کے بارے میں میرا مشاہدہ ایک انداز کی طرف نشاندہی کرتا ہے جس میں خواتین اور لڑکیوں کو منظم طریقے سے ان کی قومیت کی بنیاد پر ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔

پرمیلا پاٹن کا کہنا تھا کہ میانمار کے شمالی علاقے رکھائن میں فوج کے احکامات پر خواتین کے ساتھ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات پیش آئے۔

انہوں نے کہا فوج کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات ہم پناہ گزینوں سے سنتے آرہے ہیں جن میں عوام میں جبری طور پر برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جانا اور جنسی استحصال کے لیے فوج کی قید میں رکھنا شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک پناہ گزین نے ان کو بتایا کہ ان کو 45 دن تک میانمار فوج کی قید میں رکھا گیا جہاں انہیں مسلسل ریپ کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ان کے جسم پر زخموں، دانتوں سے کاٹنے اور جلائے جانے کے نشانات بھی موجود تھے۔

خیال رہے کہ 25 اگست کو میانمار میں ارکان روہنگیا آرمی کی جانب سے سرکاری فورسز پر حملے کے بعد ریاست رخائن میں مسلمانوں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی تھی جس کے بعد سیکڑوں مسلمان جاں بحق ہوئے جبکہ لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے۔

پرمیلا پاٹن کا کہنا تھا کہ میانمار کی سرحدی پولیس، بدھ متوں کی بنائی گئی مسلح تنظیم اور دیگر قومی گروہ بھی رکھائن میں جنسی ہراسگی کے واقعات میں شامل ہیں۔

پناہ گزین اب بھی رخائن کی سرحدوں سے بنگلہ دیش میں آنا چاہ رہے ہیں جہاں لاکھوں روہنگیا مسلمانوں نے کیمپس میں پہلے ہی سے پناہ لے رکھی ہے۔

اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق رخائن کی 10 لاکھ کی آبادی میں سے اکثریت نے مختلف ممالک میں کیمپوں میں ہجرت کی ہے۔ پرمیلا پاٹن کا کہنا تھا کہ ہجرت میں جنسی ہراسگی سب سے بڑی وجہ بنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘عوام کی بڑی تعداد کو ملک سے باہر نکالنے کے لیے وسیع پیمانے پر خطرہ پھیلایا گیا اور خواتین کا جنسی استحصال کیا گیا’۔

یاد رہے کہ دہائیوں سے روہنگیا افراد کو میانمار میں پریشانیوں کا سامنا رہا ہے جہاں ان کو شہری کا درجہ نہ دینے کے علاوہ غیر قانونی اور بنگالی مہاجرین کے طور پر جانا جاتا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے