کلمہ حق کیا ہوتا ہے ؟

ہم سب ہی لاجواب ہیں، کلمہ حق کہنے کی بے مثال جرات ہم میں ہے، جابر سلطان کی ذرا برابر پرواہ نہیں کرتے، روزانہ رات کو حکمرانوں کے سر پر چپت رسید کرکے سوتے ہیں، کھرے کو کھرا اور کھوٹے کو کھوٹا کہتے ہیں، حق کا ساتھ دیتے ہیں، باطل کے آگے سینہ سپر ہو جاتے ہیں، سچ بات کا اعلان کرتے وقت بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہوتے، ظالموں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارتے ہیں، خود کو امام حسین ؓکا پیروکار کہتے ہیں، یزید پر لعنت بھیجتے ہیں اور اپنی بہادری پر خود کو ہی گاہے بگاہے سلام پیش کرتے رہتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جبر کے ادوار میں اگر کوئی ایک آدھ مرد رعنا بھی کلمہ حق بلند کر دیا کرتا تو غنیمت سمجھی جاتی جبکہ اپنے ہاں تو خدا کے فضل سے حق اور سچ پر مبنی جدوجہد کی عظیم الشان داستانیں شب و روز رقم ہو رہی ہیں، ایسی خوش بخت قوم تو شاید ہی روئے زمین پر ملے۔ اس معاملے میں البتہ ایک چھوٹی سی الجھن ہے جو مستقلاً پریشان کئے رکھتی ہے۔ الجھن یہ ہے کہ اگر ہم سب ہی سچے ہیں تو جھوٹا کون ہے اور اگر سب نے ہی کلمہ حق کا علم بلند کر رکھا ہے تو باطل کے جھنڈے تلے کون کھڑا ہے؟ ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص بھی حاکم وقت پر تنقید کرے وہ کلمہ حق کا علمبردار کہلائے گا۔ بات مگر اتنی سادہ نہیں ہے۔ کسی بھی دور میں کلمہ حق کیا ہوتا ہے، ’’اصل حاکم‘‘ کون ہوتے ہیں، سچ کا علم کیسے بلند کیا جاتا ہے اور وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو صداقت کے داعی ہوتے ہیں اور جنہیں ہم اِس اعلیٰ درجے میں شامل کر سکتے ہیں! اِس بات کا تعین تین باتوں سے کیا جاسکتا ہے۔
پہلی، ہر اختلاف رائے کلمہ حق نہیں ہوتا۔ مثلاً 1857کی جنگ آزادی کے بعد سرسید نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ کے نام سے جو رسالہ شائع کیا اِس میں اُن باتوں پر روشنی ڈالی جن کے سبب مسلمان ’’بغاوت‘‘ کے مرتکب ہوئے اور ساتھ ہی انگریز سرکار کو مشورہ دیا کہ وہ مسلمانوں کی وفاداری یقینی بنانے کے لئے اُن سے اچھا برتاؤ کرے، نوکریوں میں حصہ دے تاکہ آئندہ تاج برطانیہ کو کم از کم مسلمانانِ ہند کی طرف سے کسی شورش کا احتمال نہ رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسید نے سراسر خلوص نیت سے مسلمانوں کے لئے یہ رسالہ تحریر کیا مگر اسے کسی بھی طرح اعلائے کلمہ حق نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں انگریز سرکار کو مثبت تنقید سے سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی اور نصیحت کے انداز میں گلے شکوے بھی کئے گئے تھے جبکہ کلمہ حق بلند کرنے کی بنیادی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ ہر قسم کی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر دوٹوک اور برملا سچ کہا جائے چاہے اس پاداش میں کالے پانی کی سزا ہی کیوں نہ ہو جائے جو اُس زمانے میں انگریز دیا کرتے تھے۔ کلمہ حق کی دوسری نشانی یہ ہے کہ صداقت کا علم بلند کرنے اور سرکشی یا بغاوت میں باریک لکیر ہوتی ہے جسے جاننا بہت ضروری ہے۔ اسلام میں اطاعت امیر لازم ہے مگر اس بات میں ہمیشہ بحث رہی کہ ایک جائز حکمران کسے کہا جاتا ہے؟ کیا ایک ظالم امیر کی اطاعت بھی محض اس لئے لازم ہے کہ وہ مسلمان ہے اور اس نے معروف طریقے سے بیعت لی ہے؟ وہ کون سا مرحلہ ہوتا ہے جب ایک ظالم امیر کی اطاعت کرنا لازم نہیں رہتا؟ کیا ایسے امیر کی اطاعت جائز ہے جس نے مروجہ طریقے سے بیعت نہ لی ہو مگر مسند اقتدار پر بیٹھ گیا ہو؟ اگر ظلم حد سے گزر جائے تو کیا ایسے امیر کے خلاف جدوجہد کا اعلان جائز ہو گا اور یہ جدوجہد کیسے کی جائے گی؟ کب یہ بغاوت کہلائے گی اور کب کلمہ حق؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر علمائے کرام نے صدیوں بحث کی ہے، امام غزالی سے لے کر امام تیمیہ تک اور ابوالکلام آزاد سے لے کر مولانا مودودی تک ہمیں مختلف موقف ملتے ہیں۔ اسلامی تاریخ سے ایک مثال پیش ہے۔ حضرت علی ؓکے خلاف خارجیوں نے ’’لا حکم الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگایا، اس نعرے کا مطلب تھا ’’اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں‘‘ اب بظاہر یہ بات درست تھی مگر اس کے جواب میں ایک تاریخی جملہ سیدنا علیؓ نے کہا ’’یہ کلمہ تو حق ہے مگر اس سے جو کچھ ان کا مقصد ہے وہ باطل ہے‘‘ خارجیوں سے زیادہ عبادت گزار کوئی نہیں تھا مگر ان کا حال یہ تھا کہ حضرت علی ؓکے ساتھ ساتھ یہ دیگر جید صحابہ کرام ؓجن میں حضرت طلحہ ؓ، حضرت زبیر ؓ، ام المومنین عائشہ صدیقہؓ پر بھی (نعوذباللہ ) لعن طعن کرتے تھے۔ بالآخر سیدنا علی ؓ نے انہیں نہروان کی جنگ میں شکست دی، ایک شاندار خطبہ آپ ؓ نے اُس موقع پر دیا جو تاریخ کا حصہ ہے اور جس میں یہ طے ہوا کہ خارجی باغی اور سرکش تھے نہ کہ کلمہ حق کے علمبردار۔کلمہ حق کے تعین کا تیسرا طریقہ ہے تاریخ کا فیصلہ۔ ایسا ہوتا ہے کہ مختلف افراد، گروہ یا حکمران صدق دل سے خود کو حق سچ پر سمجھتے ہیں اور اپنے مخالفوں کو سرکش اور باطل کے ساتھی، اس بات کا فیصلہ مگر تاریخ کرتی ہے کہ کس کا موقف سچ پر مبنی تھا اور کس کا موقف جھوٹ پر۔امام حسین ؓ کا کربلا میں سر مبارک کاٹا گیا، آپؓ کے جسم کو گھوڑوں کے سموں تلے روندا گیا، اسی زمانے میں سر کاٹ کر شہر شہر پھرانے کا دستور شروع ہوا اور امام ؓ کے سر کے ساتھ بھی ان جہنمیوں نے یہی سلوک کیا، اہل بیت ؓکی بیبیوں کے سروں سے چادریں نوچی گئیں، بیبیاں جب دمشق یزید کے پاس پہنچیں تو ایک بد بخت شامی نے حضرت حسین ؓکی بیٹی فاطمہ ؓ کو بطور لونڈی مانگ لیا تاہم یزید نے یہ مطالبہ نہیں مانا۔ دیکھا جائے تو دنیاوی اعتبار سے حضرت حسین ؓکو شکست ہوئی اور یزید نے اپنے تئیں ریاست کے ’’باغیوں‘‘ کو کچل کر ’’رِٹ آف اسٹیٹ‘‘ قائم کی مگر تاریخ میں امام حسینؓ ایک عظیم فاتح ٹھہرے اور یزید نامراد۔چودہ سو برس کی اسلامی روایت میں یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ مغرب سے سقرا ط کی مثال لی جا سکتی ہے جس نے زہر کا پیالہ ہونٹوں سے لگا لیا مگر حق پر آخری دم تک قائم رہا، یونان کے حکمران اس وقت جیت گئے مگر تاریخ میں سقراط امر ہو گیا۔
اب ذرا تاریخ کو فاسٹ فارورڈ کریں اور دیکھیں کہ گزشتہ ستّر برس میں کس کا موقف حق پر مبنی تھا اور کون باطل پر تھا۔ وہی تین فلٹر لگا ئیں، بات شیشے کی طرح صاف ہو جائے گی۔
1971میں ہم نے اکثریتی جماعت کو اُس کے حق سے محروم رکھا، مشرقی پاکستان میں آپریشن کیا، نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا، اُس وقت آپریشن کے حمایتی بھی موجود تھے اور وہ بھی جو اس کے مخالف تھے، مگر آج کوئی چھاتی پھلا کے یہ بات نہیں کہتا کہ مشرقی پاکستان کا آپریشن درست فیصلہ تھا کیونکہ تاریخ کا فیصلہ آ چکا ہے۔ اسی طرح آج کوئی ضیا ءالحق کے مارشل لا کا دفاع نہیں کرتا، مشرف کے مارشل لا کو درست نہیں کہتا، فاطمہ جناح کی مخالفت کو ٹھیک نہیں کہتا، کوئی اب ون یونٹ کا حامی نہیں اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ وہ طالبان کے طریقہ کار کا حمایتی ہے۔ حالانکہ ایک وقت وہ بھی تھا جب فاطمہ جناح کی مخالفت حب الوطنی تھی، ون یونٹ بنانا ملک کے مفاد میں تھا، مشرف کے آنے پر مٹھائیاں بانٹنے کی مثال دی جاتی تھی (حالانکہ یہ مٹھائی کسی حلوائی نے بانٹی ہوگی) اور طالبان کے قصیدے لکھے جاتے تھے اور انہیں اپنے لوگ کہا جاتا تھا۔تاریخ نے اپنے دو ٹوک فیصلے دئیے، وہ لوگ کلمہ حق کے علمبردار ٹھہرے جنہوں نے تاریخ کے ان لمحوںمیں درست موقف اپنایا۔ جو لوگ ظاہری حکمرانوں پر تنقید کو کلمہ حق سمجھ بیٹھے ہیں اُن کے لئے والٹیر کا یہ قول کافی ہے کہ اپنے اصل حاکموں کا پتہ لگانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ اُن پر تنقید نہیں کرسکتے۔ آج ہم لوگ جو موقف اپنا رہے ہیں، اس کا فیصلہ بھی تاریخ کرے گی اور بہت جلد۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے