مینڈیٹ اور مجرم میں فرق

سیانے کہتے ہیں اور سو فیصد صحیح کہتے ہیں کہ چور چوری سے جاتا ہے، ہیراپھیری سے نہیں۔ ’’چوری میرا پیشہ نماز میرا فرض‘‘ جیسے ’’روحانی کلچر‘‘ کے باوجود چوری تو میں نے کبھی نہیں کی سوائے ’’کام چوری‘‘ کے البتہ ایک زمانہ میں شاعری کا مرتکب ضرور ہوا، پھر چھوڑ دی بلکہ کالم نگاری نے چھڑوا دی لیکن اب بھی کبھی کبھی ہو جاتی ہے۔ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کے جواب میں اک ادھوری غزل پیش خدمت ہے۔ کبھی پوری ہوگئی تو وہ بھی عرض کردوں گا؎بے شک نہ وہ وفا کرےتھوڑی سی تو حیا کرےعمدہ غذا ہے جھوٹ بھیسچ بھی تو چکھ لیا کرےاپنی تو کہہ چکا ہے وہمیری بھی کچھ سنا کرےرشتے غیر مشروط نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ خالق و مخلوق کے درمیان بھی۔ کچھ ادب آداب اور لوازمات ہوتے ہیں۔ والدین اور بچوں کے حقوق و فرائض کی اک اپنی دنیا ہے، دوستی کے اپنے تقاضے، عاشقی صبر طلب، صنعت و حرفت و تجارت کا اور ہی مینرازم، قانون کا اپنا جہاں، جنگ کی اپنی ضروریات و ترجیحات غرضیکہ یہاں کچھ بھی غیر مشروط نہیں تو لیڈر شپ غیر مشروط، مادر پدر آزاد اور آوارہ کس طرح ہوسکتی ہے؟ ہمارے ہاں تو انتہا یہ کہ مقتدر کو ’’مائی باپ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی ماں باپ جیسا۔ ماں جو بچے کی پرسکون نیند کیلئے اپنی راتیں غارت کر لیتی ہے اور باپ جو بچوں کی آسودگی کیلئے ہنسی خوشی اپنی آسودگی قربان کردیتا ہے لیکن یہاں دیکھو….. لیڈران اوتار یادیوتائوں جیسے، جو خود توکیا ان کے درباری بھی انہیں ’’ابو دی لاء‘‘ (ABOVE THE LAW)قرار دیتے ہوئے نہیں شرماتےتو اس رویے کو بدبختی کے سوا کیا سمجھیں۔ اس ہیرو ورشپ نے ہمیں صدیوں سے برباد کر رکھا ہے۔ بت پرستی کی بدصورت ترین قسم ہے یہ شخصیت پرستی اور اس وقت تو یہ باقاعدہ شیطنیت کا روپ دھار لیتی ہے جب حکمران کو قانون سے بالاتر، ماورا سمجھا جانے لگے۔ کوئی کتنا ہی ہر دلعزیز یا ہر دل غلیظ کیوں نہ ہو….. قانون کی نظر اورمیزان عدل میں برابر ہے اور ہونا چاہئے ورنہ معاشرہ تنکا تنکا بکھر جائے گا۔ کیا اللہ بھی اس لئے معاف کر دے گا کہ اس کے پاس مینڈیٹ تھا۔مقبولیت کا کسی کے مجرم ہونے نہ ہونے سے کیا تعلق ہے؟ امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ کا صاحبزادہ ان کیلئے مقبول و محبوب نہ ہوگا؟ کیا خود ہمارے آقاؐ نے نہ کہا تھا کہ اگر نور عالم بی بی فاطمہؓ پر بھی یہ جرم ثابت ہو جاتا تو سزا ملتی (مفہوم) بندہ پوچھے چوری چکاری کا ووٹ کے تقدس اور مینڈیٹ وغیرہ سے کیا لینا دینا۔ کیا مینڈیٹ یا بھاری مینڈیٹ کسی قسم کا ’’لائسنس ٹو کل‘‘ہوتا ہے؟ کیا یہ ملکی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کا NOCہوتا ہے؟ ضمیر کے تکیے پر سر رکھ کر سوچئے ضرور۔بات شروع ہوئی تھی رشتوں اور ان کے تقاضوں سے تو سچ یہ کہ جسے ڈیڑھ کروڑ انسان ’’مائی باپ‘‘ سمجھ کر اپنا آپ اس کے سپرد کردیں، اسے ان کا اعتماد زخمی بلکہ قتل کرنے پر عام آدمی سے دو گنا سزا ملنی چاہئے۔ یہ تو سفاکوں کا جتھہ ہے، تاتاریوں سے زیادہ خونخوار اور بے رحم۔ کروڑوں پاکستانی خط غربت پر رینگ رہے ہیں، بیشمار خواتین زچگی کے دوران جان کی بازی ہار جاتی ہیں، اکثریت کو پینے کا صاف پانی نصیب نہیں۔ کروڑوں بچے تعلیم سے محروم کم خوراکی کا شکار اور یہ چالیس چالیس کروڑ کی گھڑیاں پہنتے ہیں۔ لوگ انہیں ’’مائی باپ‘‘ سمجھتے ہیں لیکن یہ انہیں ’’اولاد‘‘ تو کیا سمجھنا ’’زندہ آلات‘‘ بھی نہیں سمجھتے۔ یہ انہیں اپنے اقتدار کا ’’فیول‘‘ سمجھتے ہیں سو تالی دونوں ہاتھوں سے بجنی چاہئے۔ عوام کو انہیں ’’اوتار‘‘ نہیں وہی کچھ سمجھنا چاہئے جو یہ عوام کو سمجھتے ہیں۔ یہ عوام کو غلام سمجھتے ہیں، عوام کو انہیں اپنا چاکر سمجھنا چاہئے، یہ عوام کو استعمال کرتے ہیں عوام کو انہیں استعمال کر کے پھینک دینا چاہئے لیکن افسوس صد افسوس یہ تب تک نہ ہوگا جب تک عوام کو اچھے برے کی تمیز اور پہچان نہ ہوگی اور یہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں جبکہ جمہوری وارداتیئےعوام کو میٹرو بسیں، اور نج ٹرینیں، اوورہیڈز، انڈر پاسز اور سڑکیں وغیرہ تو دیں گے….. تعلیم کبھی نہ دیں گے تاکہ ان کا استحصال کرنے میں وہ آسانی قائم رہے جو انہیں آج تک فراوانی سے میسر ہے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا جس کے ایک شریر بچے ’’میڈیا‘‘ نے ’’بادشاہ ننگا ہے‘‘ کا شور مچا دیا اور عوام کچھ کچھ ہوش پکڑ رہے ہیں ورنہ اجتماعی عوامی شعور آج بھی 80ء کی دہائی کے آگے پیچھے گھوم رہا ہوتا۔کبھی غور کریں اوورسیز پاکستانیوں کی بھاری ترین اکثریت PTIکے ساتھ کیوں ہے؟ صرف اس لئے کہ ان کا ایکسپوژر کہیں زیادہ اور مافیاز پر انحصار بہت ہی کم ہے۔جو عوام پر رحم نہیں کرتا، عوام بھی اس پر رحم نہ کریں اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو کم از کم مینڈیٹ اور مجرم کا فرق تو سمجھ لیں۔ بھونپوئوں میں بھگڈر، جیسے بھونچال ہو اور کمال دیکھو اب بھی رجوع کرنے، اپنی غلطی ماننے پر آمادہ نہیں، الٹا اسے ’’سی پیک‘‘ کی سزا بتا کر پھر دھوکہ دے رہے ہیں حالانکہ وقت ہے عوام سے معافی اور اللہ سے توبہ کا مینڈیٹ ہی سب کچھ ہوتا تو اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلف نہ اٹھائے جاتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے