داعش کی پسپائی کے بعد کیا اب حزب اللہ نشانے پر ہے؟

عراق میں داعش کی پسپائی کے بعد شام میں بھی داعش کے خلاف جنگ آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پوٹن نے مل کر شام سے داعش کے خاتمے پر اتفاق کیا ہے۔عراق اور شام میں نام نہاد اسلامی اسٹیٹ کے نام پر بننے والی اس تنظیم (آئی ایس آئی ایس) نے جلد ہی لیبیا کو بھی اپنے اہداف میں شامل کر لیا اور اس طرح انگریزی میڈیا میں آئی ایس آئی ایس کے نام سے شہرت پانے والی یہ تنظیم آئی ایس آئی ایل بن گئی۔جبکہ اردو اور عرب میڈیا میں اس کا نام روز اول سے داعش ہی رہا۔کچھ عرصہ سے یہ دہشتگرد تنظیم افغانستان میں بھی اپنا نیٹ ورک بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔امریکہ کا دعوی ہے کہ اس نے عراق سے داعش کا خاتمہ کر دیا ہے اور اب وہ شام میں اس کے ساتھ برسرپیکار ہےلیکن کیا واقعی داعش کا صفایا ہو چکا ہے یا اس کی ٹرانسفر ہوئی ہے؟ ایک خطے میں داعش کے خاتمے کے دعوے کے ساتھ ہی دوسری جگہ اس کی کارروائیوں میں تیزی سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پسپائی یا خاتمے والی باتوں میں صداقت نہیں ہے بلکہ اب تنظیم کو افغانستان میں مجتمع کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تاکہ نئے عنوان سےجنوبی ایشیا میں نیا محاذ کھولا جا سکے۔سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ داعش کی افغانستان میں پشت پناہی کرنے والا کوئی اور نہیں خود امریکہ ہے۔لیکن تاحال نہ ہی افغانستان میں داعش اتنی قوت حاصل کر سکی ہے کہ فوری طور پر میدان جم سکے اور نہ ہی امریکہ کو اس کی کوئی جلدی ہے۔امریکہ سنی دہشتگرد تنظیم داعش کی پسپائی کا اعلان کر کے اپنا رخ شیعہ دہشتگرد تنظیم حزب اللہ کی طرف کرنا چاہتا ہے کیونکہ مشرق وسطی میں عرب بہار کے بعد سے جاری تباہی کے ثمرات امریکہ کی بجائے ایران اور حزب اللہ سمیٹ رہے ہیں اور حزب اللہ کے ذریعہ ہی ایران خطے میں اپنے پنجے گاڑھ رہا ہے۔ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ قاسم سلیمانی خود یہ کہہ چکے ہیں کہ چار عرب دارالحکومت ایران کے زیر تسلط آ چکے ہیں،بیروت،بغداد،دمشق اور صنعاء۔امریکہ اور سعودی عرب کے لیے یہ صورتحال کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ اب ایران کے دائیں بازو حزب اللہ پر یلغار کرنے کے لیے فضا بنائی جا رہی ہے اور سعد الحریری کا استعفی بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔

ادھر حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے وزیراعظم کے استعفی کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ سعد الحریری کو سعودی عرب نے یرغمال بنا لیا ہے اور ان سے جبرا ً استعفیٰ کا اعلان کروایا گیا ہے ، وہ بھی دیگر سعودی شہزادوں کی طرح وہاں نظر بندی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔لبنان کےعوام نے بھی سعد الحریری کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی عدم موجودگی سے ملک پیچھے کی طرف جائے گا۔

خطے میں بالادستی قائم کرنے کا خواہاں دوسرا ملک سعودی عرب ہے جسے اس وقت امریکہ کی آشیرباد حاصل ہے اور نوجوان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ٹرمپ کی تھپکی پر ہی حالیہ دنوں میں انتہائی خطرناک اور غیر مقبول فیصلے بھی کیے ہیں۔یہ فیصلے کس حد تک سعودی عرب کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں؟ اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سابق سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز کے پوتےشہزادہ ترکی بن محمد بن فہد نے شہزادہ منصور بن مقرن کی مبینہ طور پر حادثے میں ہلاکت اور دیگرشہزادوں کی گرفتاری کے بعدسعودی عرب سے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی ۔اطلاعات کے مطابق پناہ حاصل کرنے کے لیے کسی اور ملک کا نہیں بلکہ سعودی عرب کے حریف ملک ایران کا انتخاب کیا جہاں انہیں پناہ بھی دے دی گئی۔ مزید یہ کہ ان حالات میں سعودی عرب نے ایران کو جنگ کی دھمکی بھی دے دی ہے۔

داعش کی پسپائی،الحریری کے استعفیٰ اور پھر سعودی عرب کی طرف سے ایران کے خلاف جنگ کی دھمکی،یہ وہ قرائن ہیں جو سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کی پشت پناہی میں جنگ کی مکمل تیاری کا پتا دیتے ہیں۔سعودی عرب یہ سمجھتا ہے کہ حزب اللہ کو پسپا کر کے ہی ایران کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو روکا جا سکتا ہے اور اسی صورت میں ہی یمن کی جنگ جیتنا بھی ممکن ہے۔تاہم سوال یہ ہے کہ داخلی انتشار اور گرتی ہوئی معیشت کے ساتھ ایک اور بڑی جنگ میں کود کر سعودی عرب اپنا سروائیول کس طرح کر سکے گا جبکہ یمن جیسی چھوٹی جنگ کے باعث ہی اس کی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے۔اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ واقعی اس جنگ سے حزب اللہ کا خاتمہ چاہتا ہے یا اس کا مقصد بھی سعودی عرب کو ہی کمزور کرنا ہے اور نوجوان شہزادے کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے؟کیونکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران آناً فاناً کیے گئے فیصلوں پر شاہی خاندان میں تشویش پائی جاتی ہے اور اگر رواں ماہ میں ہی شاہ سلمان بادشاہت سے دستبردار ہو کر شاہی تاج اپنے بیٹے کے سرپر رکھ دیتے ہیں ۔جیسا کہ عرب میڈیا سے اطلاعات آ رہی ہیں تو اس سے دیوان ملکی میں مزید اضطراب پیدا ہو گا ۔ارض حرمین کو دشمن عناصر کی دست درازیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے شہزادہ محمد بن سلمان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے اور جوش کے بجائے ہو ش سے کام لینا ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے