بھارتی مسلمان

دور جدید کی جو قابل قدر معلومات مارکیٹ میں دستیاب ہیں‘ ان کی افادیت اپنی جگہ لیکن جس طرح بہت سے معاملات کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ اسی طرح جس نئی مارکیٹ کی خبر‘ میڈیا کے نشریاتی شعبے سے سننے کو ملی‘ اس پر مجھے تعجب تو ہرگز نہیں ہوا لیکن رنج ضرور ہوا۔دنیا میں ایک ملک ایسا ہے جو پاکستان کے بارے میں ہر طرح کی معلومات حاصل کرنے کو ہمہ وقت تجسس میں رہتا ہے اور کیوں نہ ہو؟ ہمارے ملک کے معرض وجود میں آتے ہی‘ اس کی ہم سے دشمنی شروع ہو گئی تھی۔سچ تو یہ ہو گا کہ یہ دشمنی ‘پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی سے موجود تھی۔یہ ملک بھارت ہے۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے ہمارا دشمن تھا۔اس ملک کے حکمران پہلے ہی سے ہمارے قومی وجود کے خلاف ہیں۔بھارتیوں کو یہی بات گوارا نہیں تھی کہ برصغیر میں دو قومیں موجود ہیں۔اس سلسلے میں مسلم قیادت نے ان گنت دلائل اور حقائق پیش کئے۔قائداعظمؒ نے بارہا ان لوگوں کو عقل و فہم سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ برصغیر میں ہندو اور مسلم دو قومیں ہیں۔اس کے حق میں قائدؒنے ان گنت تاریخی اور منطقی دلائل پیش کئے لیکن ہندو قیادت کی ہٹ دھرمی‘ مستقل برقرار رہی کہ مسلمان علیحدہ قوم نہیں ۔ وہ ہندوستانی ہیں۔ اور ہندوستان میں بسنے والا ہر شہری‘ ہندوستانی ہے۔
قائداعظمؒ نے کسی عناد یا منفی خیالات کی وجہ سے‘ دوقومی نظریے کی وضاحت نہیں کی تھی۔جب انہیں کینیڈا کے ایک اخبار نویس نے‘ ہندو بھارت اور مسلم پاکستان کے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بہت واضح اور مدلل انداز میں جواب دیا۔ سوال ہوا تھا کہ” آزادی کے بعد‘ مسلم پاکستان اورہندو بھارت کے تعلقات کیسے ہوں گے؟‘‘ قائداعظمؒ نے چند الفاظ میں برصغیر کے انسانی سمندر کو‘ کوزے میں سموتے ہوئے جواب د یا ”جیسے کینیڈا اور امریکہ کے تعلقات ہیں‘‘۔یہ تھاقائداعظمؒ کے ذہن میں مستقبل کا خاکہ جسے وہ ہر لمحہ بیان کرتے تھے۔ مسلمانوں کے ذہن میں نہ کوئی نفرت تھی‘ نہ عناد۔ محض دو تہذیبوں کا فرق تھا‘ جو دنیا میں کئی ملکوں کے اندر موجود ہے۔ برطانیہ چھوٹا سا ملک تھا لیکن وہاں تہذیبی اور قومی بنیادوں پر ‘وہ تقسیم موجودتھی اور ہے ‘ جہاں مختلف تہذیبی پس منظر رکھنے والے انسانی گروپ اپنی جداگانہ جغرافیائی شناختیں رکھتے ہیں۔ قائداعظمؒ نے دنیا کی سب سے بڑی مثال پیش کی تھی۔اس کے بعد کوئی ہٹ دھرم ہی اختلاف کر سکتا تھا۔ مذکورہ نمائندہ قائداعظمؒ کی دلیل سے تو لاجواب ہو گیا مگر جس قوم سے ہمارا واسطہ ہے‘ اس کے دین دھرم میں ہی نفرت بھری ہوئی ہے۔اگر آپ آزادی کے بعد ہندو قوم کی ذہنیت پر نظر ڈالیں تو وقت کے ساتھ ساتھ‘ وہ نفرت ابھرتی ہوئی اب اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ بی جے پی‘ جس نے ہندو مہاسبھا کے فلسفے سے جنم لیا‘ان دنوں حکمران جماعت ہے۔اس پارٹی کے تمام لیڈر اور کارکن‘ مسلمانوں کے بارے میں ایک ہی تصور رکھتے ہیں ۔ اپنے اس تصور کو مسلط کرنے کے لئے ‘ انہوں نے مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری بنا کر رکھ دیا ہے۔
بھارت کے سب سے بڑے صوبے‘ اتر پردیش میں گزشتہ انتخابات کے بعد‘ جب بی جے پی نے اکثریت حاصل کی تو سب سے پہلے ایک ہندو پنڈت کو‘ وہاں کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔ وہ ان تمام نفرتوں اور غیر انسانی تصورات سے ایڑی سے
چوٹی تک بھرا ہوا ہے۔اس نے آتے ہی مسلمانوں کے لئے‘ امتیازی قوانین نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔سماجی زندگی کو تہس نہس کر کے رکھ دینے والے قوانین‘ غیر انسانی طریقے سے نافذ کر دئیے۔ مثلاً یہ قانون مسلط کر دیا گیا کہ گائے کو ذبح نہیں کیا جائے گا ۔ دیہات میں ایسے ان گنت واقعات نہ صرف رونما ہوتے ہیں بلکہ مختلف ٹی وی چینلزپر اس وحشیانہ خونریزی کے مناظر بھی دکھائے جاتے ہیں‘ انہیں دیکھ کر انسانیت شرم سے آنکھیں بند کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات مسلمان کھیتی باڑی کے لئے‘ بیلوں کی پیدائش کی غرض سے گائے خرید کر لے جاتے ہیں تو انہیں راستے میں گھیر کے لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے اس وقت تک مارا جاتا ہے‘ جب تک وہ دم نہیں توڑ جاتے۔ایسے بے شمار واقعات رونما ہوتے ہیں جن کی اطلاع وزیراعظم مودی کو دی جاتی ہے تو وہ بڑی ڈھٹائی سے جواب دیتے ہیں کہ”قانون اپنا کام کرے گا‘‘۔لیکن قانون جو کام کرتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ جس مسلمان کو بھی گائے رکھنے کے جرم میں جان سے مارا جاتا ہے‘ اس کی شکایت کے جواب میں مودی سے لے کر صوبائی لیڈروں تک‘ ایک گھڑا گھڑایا جواب ملتا ہے کہ ”قانون اپنا کا م کرے گا‘‘۔اور قانون کا کام یہ ہے کہ جب مسلمان بیلوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے‘ گائے کو بچھڑے سمیت خرید کر لے جاتے ہیں تو انہیں راستے میں گھیر کے مار دیا جاتا ہے۔ اور جب کوئی زخمی ہسپتال پہنچایا جاتا ہے تو ڈاکٹر اس کا علاج کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔یہ ہے ہندوستانی قومیت کا وہ بھیانک روپ‘ جس کے خونیں مناظر دنیا دیکھ رہی ہے۔ہمیں خدا کا شکر اور قائداعظمؒ کا احسان مند ہوناچاہئے کہ وہ ہمیں ہندو اکثریت کے مسلسل عذاب سے بچا گئے لیکن بھارت میں رہ جانے والے مسلمان نجانے کب تک یہ عذاب ناک زندگی گزاریں گے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے