ریاستی ادارے، بلوچ علیحدگی پسند اور عوام

جب کبھی بلوچستان میں سیکورٹی ادارے یا بلوچ علیحدگی پسند تنظیمں کوئی بڑی کاروائی کرتے ہیں تو سوشل میڈیا پرعوام کی رائے دو گروہوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔

ان میں اول گروہ کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اول وآخر پاکستانی ریاست اور اسکی سیکیورٹی اداروں کی بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے خلاف ہر اخلاقی و غیر اخلاقی کاروائی کی حمایت کرنے کی شاید قسم کھائی ہوتی ہے، انھیں ہم اپنی سہولت کیلئے پروسٹیٹ کہہ دیتے ہیں ۔
دوسرے گروہ میں وہ دوست شامل ہیں جو بلوچستان کی آزدی کی حامی ہیں اور اول وآخر انہوں نے بھی شاید بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی آزادی کے ضمن میں کی گئی ہر اخلاقی وغیراخلاقی کاروائی کی حمایت کرنےکی قسم کھائی ہوتی ہے ۔

مثال کے طور پر آپ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے ہاتھوں مارے گئے غیربلوچ مزدوروں کے کسی بھی واقعے پر بلوچستان کی آزدی کے حامی دوستوں کی رائے دیکھ لیں، اکثریت کا ماننا یہ ہوتا ہے کے چونکہ بلوچستان اس وقت ایک جنگ زدہ علاقہ ہے، جہاں بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں پاکستانی ریاستی اداروں کے خلاف آزدی کی جنگ لڑ رہے ہیں ، اس لیے ہر وہ شخص جو ریاستی پاکستانی ریاست کا حامی ہے یا اسکے تحت چل رہی کسی بھی منصوبے میں ریاست کیلئے کام کر رہا ہے ، چاہے وہ مزدور ہی کیوں نہ ہو ، اسکا قتل جائز ہے ۔ جبکہ انھی غیر بلوچ مزدوروں کے قتل پر آپ ہمارے’ پرو سٹیٹ’ دوستوں کی رائے لے لیں تو وہ اسکو ظلم عظیم ، ناجائز اور غیر اخلاقی کہیں گے ۔

حال ہی میں بلوچ علیحدگی پسند لیڈر اللہ نذر کی اہلیہ اور اسکی بچی سمیت چند ایک عورتوں کو سیکیورٹی اداروں نے مبینہ طور پر کوئٹہ سے گرفتار کیا تھا۔ اس پر بلوچستان کی آزادی کے حامی وہ دوست جو مزدوروں کے قتل عام جیسے فعل کی حمایت کرنے سے نہیں چوکتے تھے، اخلاقیات اور انسانی حقوق کا راگ الاپتے رہے۔ جبکہ اسی واقعہ پر ہمارے پرو سٹیٹ دوست نہ صرف سیکیورٹی اداروں کو شاباشی دیتے رہے بلکہ اس کو عین اخلاقی سمجھتے رہے اور علیحدگی پسند تنظیموں کیخلاف سخت سے سخت کاروائی کامطالبہ کرتے رہے ۔

اب مجھ جیسے طالب علم کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اگر بلوچستان میں مزدوری کرنے والے غیر بلوچ مزدوروں کے قتل عام کو جائز سمجھنے والے دوست اللہ نظر کے خاندان کی گرفتاری پر سیخ پا کیوں تھے ؟ اگر مزدوروں کا قتل اس لیے جائز ہوجاتا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے تحت چلنے والے منصوبوں میں مزدوری کرتے ہیں تو کیا اللہ نظر کے خاندان کی گرفتاری بھی اسی اصول کی رو سے جائز نہیں ہوجاتی، کیوں کہ وہ بھی تو اللہ نظر کے فیملی والے ہیں؟

مجھے بلکل اسی طرح اس بات کی بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ لوگ جو اللہ نزر کی فیملی کی گرفتاری ، وہاں پر مختلف گاؤں پر ممباری کوجائز اورعین اخلاقی سمجھتے تھے ، وہ بلوچستان میں مزدوروں کے قتل عام کو غیر اخلاقی کیونکر سمجھتے ہیں ؟

مجھ سے پوچھیں تو یہ بلکل "میرا چور زندہ باد، تیرا چور مردہ باد” والا رویہ ہے، کیونکہ اگر مزدوروں کا قتل عام جائز ہے تو بلوچستان کے گاؤں پر بمباری اور اللہ نذر کے خاندان کی گرفتاری جیسی کاروائیاں بھی جائز ہیں ، بلکل اسی طرح اگر اللہ نذر کے خاندان کی گرفتاری ، جبری گمشدگیوں جیسی کاروائیاں درست ہیں تو پھر مزدوروں کا قتل عام بھی درست اور عین اخلاق کے مطابق ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے