یاسر پیر زادہ اقوال زریں ٹھیک ہیں مگر

مجھے اقوال زریں بہت پسند ہیں، اکثر میں انہیں پڑھ کر دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا ہوں، وجہ اِس کی یہ ہے کہ آپ جس قسم کے بھی انسان ہیں آپ کو اسی قسم کا قول اپنے دل کی تسلی کے لئے مل جائے گا، حتّیٰ کہ اگر آپ میری طرح وقت ضائع کرنے کے چیمپئن ہیں تو اس کے لئے بھی آپ کو یہ قول مل جائے گا کہ Time you enjoy wasting is not wasted time۔ اسی طرح نالائقوں کی حوصلہ افزائی سے متعلق بھی بے شمار قول آپ کو مل جائیں گے، جن کے ذریعے یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ دراصل جیتنا ضروری نہیں، ہارنا صحت کے لئے اچھا ہوتا ہے، جو انسان ہار کا مزا نہیں چکھتا وہ کبھی جیت نہیں سکتا، کامیابی حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں اصل بات تو کامیابی کو قائم رکھنا ہے، دنیا کا ہر بڑا آدمی زندگی میں کبھی نہ کبھی ناکام اور پڑھائی لکھائی میں نالائق ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بلاشبہ یہ باتیں سننے میں بہت دلکش لگتی ہیں لیکن اگر کوئی نوجوان میٹرک میں فیل ہونے کے بعد نتیجہ سامنے رکھ کر والد صاحب کو یہ سمجھانے کی کوشش کرے کہ ابا جان میٹرک میں فیل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ’’گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں‘‘، ’’ وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے‘‘ تو جواب میں قبلہ والد صاحب ایسے طفل کی تواضع کیسے فرمائیں گے، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس ساری تمہید کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اقوال زریں پڑھنا چھوڑ دیں کیونکہ بہرحال برے وقت میں یہ اقوال بہت حوصلہ دیتے ہیں، جیسے کہ آپ عشق میں ٹھکرائے گئے ہوں یا امتحان میں ناکام ہوئے ہوں، نوکری نہ ملنے کے بعد مایوس ہوں یا کاروبار میں گھاٹے کے بعد ہمت ہار بیٹھے ہوں، ہر قسم کی صورتحال کے لئے آپ کو کوئی نہ کوئی motivational quote دل کی تسلی کے لئے مل جائے گا اور آج کل تو ویسے بھی motivational experts اور ناصح مقررین کی کمی نہیں جو صبح شام آپ کو یہ بتانے کے لئے بیتاب ہیں کہ کیسے آپ زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں، خوشی کیسے پا سکتے ہیں، زندگی میں پریشانیوں کو دور کیسے کر سکتے ہیں، ٹینشن سے نجات کا کیا طریقہ ہے، اپنے دماغ سے منفی رجحان کو کیسے ختم کیا جاتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ دوسروں کو زندگی گزارنے کا مشورہ دینے والے اِن مسیحاؤں میں سے زیادہ تر خود ابھی تک زندگی میں سیٹ نہیں مگر اس کے باوجود نہایت خوداعتمادی سے لوگوں کو زندگی گزارنے کے اصول یوں بتاتے ہیں جیسے ڈیل کارنیگی اِن کا شاگرد رہا ہو۔

آج خود میرا بھی ارادہ ایسے ہی زندگی کے کچھ تجربات شئیر کرنے کا تھا مگر میں نے مناسب سمجھا کہ پہلے اپنے حسد کا اظہار کرلوں اُن لوگوں کے خلاف جو میرے چھابے میں ہاتھ مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی پہلا اصول ہے۔ اپنے آپ سے سچ بولیں۔ رات کو سوتے وقت اپنے دل میں جھانک کر اپنے آپ سے چند سوالات پوچھیں اور خود کو سچا جواب دیں، سار ے دن میں کیا مکر و فریب، جھوٹ سچ، ایمانداری، خیانت ،ہر بات کو تولیں اور سوچیں آپ کہاں غلط اور کہاں صحیح تھے، آج کے دن میں کیا ڈھنگ کا کام کیا اور کتنا وقت ضائع کیا، اسی ایک بات سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ اپنی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کے خود کتنے ذمہ دار ہیں، مگر یہ خود تشخیصی کام آسان نہیں، اس کے لئے بے رحمانہ انداز میں اپنا احتساب کرنا پڑے گا۔ دوسرا اصول، ضروری نہیں کہ بڑے اور عظیم آدمیوں کی کہی ہوئی ہر بات درست ہو اور آپ کو سوٹ کرتی ہو، بعض اوقات کوئی عام آدمی بھی ایسی بات بتا دیتا ہے جو زندگی میں بہت کام آتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ضروری نہیں کہ مشہور اور بیسٹ سیلر کتاب ہر قاری کو یکساں انداز میں پسند آئے، اکثر ایسی کتابیں مایوس کرتی ہیں مگر ہم اظہار اس لئے نہیں کرتے کیونکہ اُس صورت میں ہمیں اپنی کم علمی کا پول کھلنے کا اندیشہ ہوتا ہے حالانکہ جو آپ سوچ رہے ہوتے ہیں وہی بات اکثریت بھی سوچ رہی ہوتی ہے مگر اسی خوف کے مارے کہہ نہیں پاتی۔ بڑے لوگوں کے کام، اُن کی باتیں، تحریریں، قول، ہر چیز کو اس بات سے بالاتر ہو کر پرکھیں کہ باقی دنیا نے اس بار ے میں کیا کہا ہے اور پھر اپنی رائے قائم کریں، ہو سکتا ہے کہ آپ کی رائے بھی وہی ہو جو باقی دنیا کی ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ کی رائے مختلف ہو، اِس صورت میں اپنے تجزیئے کو ڈبل چیک کر لیں کیونکہ کسی ایسی بات کو رد کرنے کے لئے، جو لوگوں میں مقبول عام ہو، آپ کے پاس دلائل بھی اتنے ہی مضبوط ہونے چاہئیں۔ یاد رکھیں، بعض اوقات جن لوگو ں کو ہم عظیم اور بڑا آدمی سمجھ رہے ہوتے ہیں دراصل وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار کسی راہ چلتے شخص کی بات بھی آپ کی زندگی میں مثبت کردار ادا کردیتی ہے، میں تو اکثر ایسے لوگوں سے سیکھتا ہوں جو یونہی روزمرہ گفتگو کے دوران انجانے میں پتے کی بات بتا دیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک بات میرے کولیگ نے ایک مرتبہ یونہی منہ اٹھا کر کردی جو خاصے پتے کی تھی کہ زندگی میں ہونے والے چھوٹے موٹے نقصانات کو یاد کرکے دل جلانے کی ضرورت نہیں ہوتی، انسان کو چاہئے انہیں سر سے جھٹک کر آگے کی سوچے۔بظاہر معمولی لیکن بہت کام کی بات ہے۔

تیسرا اصول، زندگی کے بڑے فیصلے کرتے وقت لوگوں سے مشورے کریں، اپنے مخلص دوستوں کی رائے لیں، اپنے اساتذہ سے بات کریں، کامیاب لوگوں کی زندگی سے رہنمائی لیں مگر آخری فیصلہ خود کریں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی، دنیا کا کوئی بھی شخص، کوئی بھی صورتحال اور کوئی بھی تجربہ ایسا نہیں ہو سکتا جو عین اسی طرح آپ پر منطبق ہو سکتا ہو، ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق مشورہ دیتا ہے مگر وہ اُس صورتحال میں، اُس طرح نہیں جا سکتا جس طرح ہم اُس میں ہوتے ہیںسو اِن مشوروں کو تولیں ان میں بتائی گئی باتوں اور تجربات کا فائدہ اٹھائیں اور پھر اپنے مطابق فیصلہ کریں۔ دوسری، اگر آپ نے اپنے دل کی ماننے کی بجائے مجبوراً کسی دوسرے کی رائے کے مطابق فیصلہ کیا اور وہ غلط ثابت ہوا تو آپ تمام عمر پچھتائیں گے اور اگر آپ نے خود فیصلہ کیا اور وہ غلط ثابت ہوا تو اُس صورت میں پچھتاوا کہیں کم ہوگا۔
ایک آخری اصول یہ ہے کہ زندگی کسی لگے بندھے اصول پر نہیں گزاری جا سکتی، جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں روزانہ کی بنیاد پر غیر معمولی تبدیلیاں ہو رہی ہیں جنہیں ہم محسوس ہی نہیں کر پا رہے۔ جو بات آج سے محض پانچ سات برس قبل انہونی لگتی تھی آج وہ بالکل معمول کی بات لگتی ہے۔ زندگی کی اس برق رفتاری سے نمٹنے کے لئے اب کچھ نئے اصول وضع کرنے پڑیں گے، پرانے اور رٹے رٹائے اصول اب کارگر نہیں ہوں گے۔ یہ نئے اصول کیا ہیں، ان کا ذکر پھر کبھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے