خبر تھی گو اُسے اب معجزے نہیں ہوتے!

مٹی نہ پھرول فریدا… یار گواچے نئیں لبدے۔ ہنستا مسکراتا اس کا چہرہ آنکھوں سے اوجھل تو ہو گیا مگر یادوں سے نہیں۔ عجب شخص تھا۔ گھر ہو یا دفتر، دوست ہوں یا دشمن۔ جہاں گیا، مسکراہٹیں بکھیرتا رہا۔ فیصل آباد کا نامور صحافی غلام محی الدین ہم میں نہیں رہا۔ صرف اکتالیس برس کی عمر میں‘ تین چھوٹے چھوٹے بیٹے چھوڑ کر خود آخری سفر پر چل دیا۔ گزشتہ ہفتے محی الدین کے انتقال کی خبر ملی تو دو بار گھر سے نکلا۔ گاڑی فیصل آباد کی جانب چلی مگر ہمت نہ ہو سکی کہ مسکراہٹوں بھرا چہرہ ماند پڑا دیکھوں۔ بالآخر واپس ہو لیا۔ چند مشترکہ دوست البتہ جانتے تھے کہ یہ نہیں پہنچ پائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ ہمت نہیں باندھ سکا۔ افسوس رہے گا۔ پاس بیٹھے ایک دوست نے پوچھا: خیر ہے ناں! امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور ملک بھر سے تمہیں ہی تعزیتی فون موصول ہو رہے ہیں۔ کیا لگتا تھا وہ تمہارا؟ سوال سنا، دیر تک خامشی کا راج رہا۔ جواب بن نہ پایا کہ صدمے سے ذہن مفلوج اور دل بیٹھ چکا تھا۔ کئی دن ماتمی کیفیت برپا رہی۔

قریب دس برس پہلے ہم دونوں نے اکٹھے ٹی وی جرنلزم میں قدم رکھا۔ ایک نیا ٹی وی چینل ہمارا پہلا پڑائو تھا۔ ٹی وی لانچنگ سے پہلے تین ماہ کی ٹریننگ تھی، پاکستان بھر سے سٹاف لاہور میں بلا لیا گیا۔ محی الدین سے ان دنوں پہلی ملاقات ہوئی۔ چائے پر ہوئی غیر رسمی ملاقات ختم ہوئی تو یوں لگا جیسے ہم دو بچھڑے بھائی تھے‘ جو آج اتفاق سے آن ملے۔ اور پھرگویا ایک دوسرے کے مستقل فیملی ممبرز بن گئے۔ ٹی وی چینل کا آغاز ہو رہا تھا، محی الدین فیصل آباد کا تب بھی ایک نامی گرامی رپورٹر تھا، کیمرے کا سامنا کرنا البتہ اس کیلئے نیا تجربہ تھا۔ اپنی پہلی ٹی وی اپیئرنس سے قبل کہنے لگا: مرشد! ویکھ لینا…! کہا: ٹینشن نہیں لینی میرا ویر… گو آن…! اور پھر یہ جملے ہماری ہر گفتگو کا حصہ رہے۔

جب بھی آن ایئر اس سے گفتگو ہوئی‘ سینئرز نے کہا یار یہ تم لوگ ایسا ‘بیپر‘ (ٹی وی پر رپورٹر سے گفتگو) باقی رپورٹرز کے ساتھ کیوں نہیں کر تے؟ ہمارا جواب ہمیشہ یہی رہا: محی الدین کے ساتھ لائن اینڈ لینتھ اور فریکوئنسی ملتی ہے بھائی۔ باقیوں کے ساتھ وقت لگے گا۔ پھر ہم 2010ء کے اواخر میں دنیا چینل کے ساتھ وابستہ ہوئے تو محی الدین بھی ہمارے ساتھ آن ملا۔ اس نے فون کیا۔ لائلپوری لہجے میں پھر وہی سوال نما استعجابیہ ”مرشد…! ویکھ لینا…! ایتھے کم چل پوئو گا ؟‘‘ کہا: ڈونٹ یو وَری برادر! رَل مِل کے کم چِھک لواں گے۔ گو آن…!‘‘ اور پھر اس ادارے سے اس قدر محبت ملی کہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
محی الدین البتہ ساتھ چھوڑ گیا۔ کبھی آمنا سامنا ہوا تو ضرور پوچھوں گا کہ کمبخت! تمہیں جلدی کاہے کی تھی؟ آگے کسی کا ادھار چُکانا تھا کیا؟ مجھے امید ہے کہ وہ تب بھی مسکرا کر جواباً کوئی جگت رسید کرے گا۔

باخبر اس قدر کہ فیصل آباد کی سیاست اس کی فنگر ٹپس پر تھی، ہمیشہ سب سے پہلے خبر بریک کی۔ اتفاق سے ہم اکٹھے کسی ٹرانسمیشن یا پروگرام میں آن ایئر ہوتے تو محی الدین کا بیپر ”ٹریٹ ٹو واچ‘‘ ہوتا۔ اگر کبھی بھولے سے بھی فیصل آباد رکے بنا گزر ہوا تو محی الدین کا فون آتا: ”مرشد… ویکھ لینا اے… ایس وری تُسی زیادتی کیتی اے… واپسی تے آنا جے‘ نہیں تے ہونے ای گڈی موڑ دیو…‘‘ اور ہم انہی قدموں پر فیصل آباد حاضر ہوتے۔ اس کے انتقال کی خبر موصول ہوئی تو کہیں لکھا کہ محی الدین تم سے گلہ رہے گا، ابھی ہمت نہیں ، لکھوں گا تفصیل سے۔ بہت تفصیل سے۔ لیکن آج جب لکھنے بیٹھا ہوں تو یادوں کے جھروکوں میں کھو بیٹھا ہوں۔ قریب دو برس پہلے اسے دل کا عارضہ لاحق ہوا تو میں نے فون کیا۔ عارضہ قلب پر ذاتی تحقیق خاصی اچھی ہے، فوری اسے معاملے کی نزاکت سے آگاہ کیا اور چند اچھے کارڈیالوجسٹ ریفر کئے۔ گفتگو ختم ہوئی تو موبائل سکرین پر اس کا مسیج نموادار ہوا ”مرشد! ویکھ لینا… کم چل پوئو گا؟‘‘ میں مسکرایا اور کہا: ”ہاں جے میرا کم چل سکدا اے تے تیرا کیوں نیں؟‘‘

اس مرض سے نمٹ رہا تھا کہ گردے بے وفائی کرنے لگے۔ پھر فون پر بات ہوئی تو میں نے حسب معمول گردوں کے بارے میں بھی اپنی معلومات کا تبادلہ کیا۔ اب جب فون بند ہوا تو پہلی بار سنجیدہ مسیج سکرین پر نموادار ہوا ”مرشد… آخری وری کہہ ریا واں… ویکھ لینا… کم خراب جے‘‘۔ اور میں پہلی بار اسے جواب دینے سے قاصر رہا۔ مکمل علاج، پرہیز اور آرام۔ الغرض تمام تر نسخے اپنائے۔ بہادری سے محی الدین اس مرض سے لڑتا رہا کہ ڈائلیسز کی نوبت آ گئی، ابھی ہفتہ‘ دو ہفتے گزرے ہوں گے کہ معاملہ بگڑ گیا۔ رات کے پچھلے پہر ہسپتال لے جایا جا رہا تھا کہ محی الدین کہیں اور چل دیا‘ پھر کبھی واپس نہ آنے کے لئے۔ اور مجھے یوں گمان گزرتا ہے جیسے وہ اب بھی یہ کہہ رہا ہے: مرشد…! ویکھ لینا… ایتھے کم چل پوئو گا؟ اب اسے کیا جواب دوں اور کیسے جواب دوں؟ ؎

بلا کی چمک اس کے چہرہ پہ تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا

نہیں معلوم کہ جب کوئی اپنا بہت عزیز دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس کی یاد میں کیا لکھتے ہیں اور کیسے لکھتے ہیں۔ محی الدین نے جلدی کی۔ بہت جلدی کی۔ اور اس سے زیادہ جلدی اب جانے مانے ٹی وی اینکر عظیم مرزا کو لاحق ہو گئی ہے۔ پینتیس برس کا عظیم مرزا‘ دنیا نیوز کے ساتھ وابستہ رہا۔ پھر کہیں اور ڈیرے لگائے۔ یارِ خاص، دوستوں کا جگر لاہور شہر کی رونق۔ ایک ایسی روح جس کے ذمے ایک ہی کام ہے؛ دوستوں کے کام آنا۔

عظیم کو کینسر کا مرض لاحق ہے۔ کینسر کی سرایت کی وجہ سے خون اور پانی اس کے پھیپھڑوں میں بھر چکا۔ وینٹی لیٹر آن کر دیا گیا ہے۔ دو برس سے وہ جان لیوا مرض سے نبرد آزما ہے۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے پاس وقت کم ہے، لہٰذا اُس نے اسی حساب سے زندگی پلان کرنا شروع کر دی۔ پہلے مرحلے میں بیماری سے لڑنے کا پلان بنایا۔ ابتدا میں مقامی ڈاکٹرز کی غلطی سے مرض بے قابو ہوا تو عظیم نے اپنی بیماری پر ایک ویب سائٹ بنائی، دنیا بھر کے نامور ڈاکٹروںسے مشورہ کیا اور دوبارہ علاج شروع کرایا۔ کیمو تھراپی سے نڈھال عظیم کی ہمت مگر ہمیشہ جوان رہی۔ دوسرے مرحلے میں اس نے گھر بیٹھ کر بزنس پلان کیا۔ چین سے موبائل اور کمپیوٹر اسیسریز امپورٹ کیں، آن لائن ایک بڑا نیٹ ورک تشکیل دیا۔ گھر بیٹھے بیٹھے‘ ایک لیپ ٹاپ اور دو ٹیلی فونوں کی مدد سے پورے پاکستان میں پھیل گیا۔ فقط ایک سال کے اندربھائی سہیل کے ساتھ مل کر کامیاب بزنس ماڈل کھڑا کر دیا۔ ریٹائرڈ انجینئر بزرگ باپ بیٹے کی ان کاوشوں کی وجہ سے دوبارہ تاز ہ دم ہو رہا تھا لیکن عظیم مرزا خود ہسپتال کے بستر پر لیٹ گیا ہے، ظالم!

ابھی چند ہفتے پہلے تو کافی پلائی اس نے۔ دوستوں کو صحت مند زندگی گزارنے کی ٹِپس دے رہا تھا۔ اور اب آج ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر سانس لے رہا ہے۔ کیا ستم ہے کہ ابھی محی الدین کا چہرہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوا کہ اب عظیم نے وینٹی لیٹر آن کر لیا ہے۔ عظیم کی دو چھوٹی بچیاں گھر میں اپنی ماں سے بار بار پوچھ رہی ہیں: بابا کہاں ہیں؟ بابا گھر واپس کب آئیں گے؟ اور عظیم کا بھائی سہیل مجھے فون پر ہر بار یہی جواب دے رہا ہے کہ عظیم کی صحت نہیں سنبھل رہی۔ ڈاکٹرز مایوسی پھیلا رہے ہیں، آپ ہی انہیں سمجھائیں کہ مایوسی گناہ ہے۔ پھر سہیل یہ کہتا ہوا فون بند کر دیتا ہے: مرشد…! میں عظیم کو ایسے کیسے جانے دوں؟ اور میں فون بند کر کے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سوال کرنے لگتا ہوں کیا اب معجزے نہیں ہوتے؟

کہتے ہیں دعا تقدیر بدل سکتی ہے۔ میرے دوست کے لئے دعا کیجئے گا۔ ؎

خبر تھی گو اُسے اب معجزے نہیں ہوتے
حیات پھر بھی مگر محو انتظار رہی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے