گرین ڈے

پہلے تو ایک مزیدار قصہ سن لیجئے۔ امریکہ میں دکانداروں نے سیل بڑھانے کے لئے ایک ترکیب نکالی۔ بلیک ڈے کے نام سے ‘محفوظ شدہ سٹاک باہر لا کر رکھ دیا۔ قیمتوں میں کچھ کمی کی۔ جلد ہی یہ بازار خاص اہمیت حاصل کر گئے۔ امریکہ میں بلیک ڈے ایک جشن کی طرح منایا جانے لگا۔ دکاندار اپنا سامان‘ شوروم یا دکان سے باہر رکھ کر فروخت کے لئے رکھ دیتے ہیں۔ جتنا بھی مال ہوتا ہے‘ قریباً ان کا اسّی فیصد اچھے داموں بک جاتا ہے۔ امریکیوں کی دیکھا دیکھی‘ انگلینڈ کے دکانداروں نے بھی یہ ترکیب آزمانا شروع کی لیکن امریکہ والے ثابت قدمی سے یہ دن مناتے چلے آ رہے ہیں۔ کئی سال گزرنے کے بعد اچانک کیا ہوا کہ اس برس‘ بلیک ڈے کے لئے‘ انگلینڈ میں بھی کافی گرم جوشی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ دکانداروں نے ابھی سے سامان بھرنا شروع کر دیا ہے۔ گاہکوں کو خبر پہنچائی جا رہی ہے کہ بلیک ڈے‘ خریداروں کے لئے بہترین دن ہو گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس مرتبہ یہاں بھی خریداروں کا سیلاب امڈے آئے گا ‘ جیسے امریکہ کے اندر ہوتا ہے۔ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ یہ بلیک ڈے‘ پاکستان میں بھی متعارف کرانے کی کوشش کی گئی۔ چند برسوں سے دکاندار‘ ارزاں نرخوں پر سامان فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہاں اسلام کے بعض ٹھیکیداروں نے‘ اس کاروباری دن کو بھی‘ مذہبی مسئلہ بنا کے رکھ دیا اور دبائو ڈالا جانے لگا کہ ہم مسلمانوں کو‘ سیاہ دن کا جشن منانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ”غیر اسلامی‘‘ حرکت ہے۔ مناسب ہو گا کہ ہم بلیک ڈے کے نام سے خریداروں کا دن منانے کی ترکیب کو ترک کر دیں۔ مسلمانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ سیاہ دن کے ساتھ بھر پور شاپنگ کا دن منائیں۔ چنانچہ ہمارے خوف زدہ دکاندار‘ اس دن کو ترک کرنے لگے ہیں۔ میرے خیال میں اگر پاکستان میں اس کاروباری دن کو ‘جوش و خروش سے خریداری کے لئے‘ بلیک ڈے منانے کے بجائے ” گرین ڈے‘‘ کے طور پر منانا شروع کیا جائے۔ یہ روایت بڑی تیزی کے ساتھ پاکستان میں مقبول ہو جائے گی اور اسلام کے بعض ٹھیکیداروں کے سینے میں بھی ٹھنڈ پڑ جائے گی۔

ہو سکتا ہے یہ ٹھیکیدار بلیک ڈے کا نام ”گرین ڈے‘‘ رکھے جانے پر‘ خود بھی اس کام میں ذوق و شوق سے حصہ لینا شروع کر دیں اور گاہکوںکو بھر پور خریداری کا موقع میسر آ جائے۔ اس طرح ہم اخبار والوں کا بھی بھلا ہو جائے گا۔ ”گرین ڈے‘‘ میں سامان کی قیمتیں معقول حد تک کم کر کے‘ جشن خریداری منایا جانے لگے۔ کاروباری سٹورز اور دکانوں میں میلوں کی طرح ‘ خریداروں کے ہجوم دکھائی دینے لگیں۔ بچوں کے مزے ہو جائیں۔ دکانداروں کا کاروبار پورے عروج پر آجائے۔ رہ گیا خواتین کا سوال‘ تو ہر خریداری کے موقع پر ان کی کیفیت عجیب ہو جاتی ہے۔ منہ سے کہیں گی کہ ”کیا مصیبت کا دن شروع ہو گیا ہے؟ گھر کے بجٹ میں اضافہ ہو جائے گا‘‘۔ بیشتر خواتین یہی رائے دیں گی لیکن بازار جانے کے بعد‘ سب سے زیادہ خریداری بھی وہی کریں گی۔

عمران خان اس بات کا بہت گلہ کرتے پھر رہے ہیں کہ میاں نواز شریف نے اپنے اراکین اسمبلی سے‘ ووٹ حاصل کرنے کے لئے بھاری خزانے کھولے۔ اس کے باوجود بیس کے قریب اراکین اسمبلی غیر حاضر رہے۔ ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ ان غیر حاضر اراکین قومی اسمبلی نے‘ اپنی قیادت کی مثال پر عمل کیا اور ”کچھ بھی نہ کیا اور کما بھی لیا‘‘۔ مگر (ن) لیگ کے بعد بعض اراکین اسمبلی کو رنج ہے کہ ساڑھے چار سال تک اراکین ”سیاست‘‘ کے مزے اڑاتے رہے لیکن میر ظفراللہ خان جمالی کو کسی نے نہیں پوچھا۔ نہ کسی نے ووٹ مانگا۔ نہ ان کے گھر لفافہ پہنچایا۔ ان کے پاس ایک ہی جواز تھا کہ میں اس گندے کام میں نہیں پڑ سکتا۔ سیاست کرتے کرتے بوڑھا ہو گیا ہوں۔ کبھی اسے ذریعہ سے معاش نہیں بنایا۔ اس مرتبہ بھی‘ جب ایک ارب روپے‘ فی ووٹ کا نرخ کھلا تو بہت سے لوگوں کے دل للچائے ہوں گے۔ میر صاحب نے تو اس طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ ہو سکتا ہے کہ لفافہ بھی کھول کر نہ دیکھا ہو۔ مگر سب ایسے نہیں ہوتے۔ ایک اندازہ ہے کہ جو‘ بیس ارکان ووٹ دینے کے لئے نہیں آئے۔ انہیں غصہ ہے کہ ان کے گھر میں کوئی لفافہ لے کر نہیں آیا۔ وہ اسی غصے میں حاضر ہی نہ ہوئے۔خبر یہ ہے کہ غیر حاضر رہنے والے تمام اراکین قومی اسمبلی سے جواب طلبی کے لئے‘ دھمکی آمیز پیغام پہنچایا گیا کہ ووٹ ڈالنے کے لئے کیوں نہیں آئے؟ وہ بیس اراکین جو حاضر ہونے سے محروم رہے‘ انہیں چاہئے تھا کہ سب سے پہلے‘ پنجاب ہائوس جا کر لفافے کا سوال کرتے۔ پیر بھی پکڑتے اور کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ بھی کرتے کہ آئندہ ہمیں اجلاس میں لازماً شرکت کرنا ہو گی۔ وعدہ کرنے والے کو معاف کر دیا جائے گا ورنہ مسلم لیگ (ن) کے بجائے کسی اور سے جا کر سودا کر لیں گے۔ ہو سکتا ہے کئی سودا کر بھی چکے ہوں۔

بہترین گھوڑوں کو ریس سے پہلے تیار کیا جاتا ہے‘ اسی طرح رانا ثناء اللہ کو بھی‘ انتخابی تقریروں کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔ وقت آئے گا کہ وہ‘ سب سے زیادہ تیز دوڑیں گے اور مشق کرنے والے گھوڑوں پر نگاہیں بھی رکھیں گے۔ رانا صاحب کے گھوڑوں پر‘ عمران خان کے زیادہ امیدوار‘ ریس جیتیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے