بوڑھی سیاسی جماعتوں کا بچپنا

نوابزادہ نصراللہ خان کی زندگی میں کسی ستم ظریف نے تبصرہ کیا کہ نوابزادہ کاپورا سیاسی کیرئیر دورِ جمہوریت میں آمریت اور آمرانہ دور میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں گزرا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ نوابزادہ پر یہ پھبتی کس قدر حقیقت پسندانہ تھی۔ مگر جب میں اپنے اردگرد دیکھتا ہوں تو جو بات نوابزادہ کے لیے کہی گئی وہ موجودہ سیاسی پیڑھی پر زیادہ فٹ بیٹھتی ہے۔بلکہ نوابزادہ کی سیاسی نیت اس اعتبار سے مثبت تھی کہ انھوں نے کبھی ذاتی مفاد کی سیاست نہیں کی مگر سیاستدانوں کی موجودہ پیڑھی کو دیکھ کر یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا۔

آج بھی دو طرح کی اقسام دکھائی دیتی ہیں۔ وہ سیاستداں جو صرف دورِ آمریت میں پھلتے پھولتے ہیں اور جمہوری دور میں ثانوی درجے پر رہتے ہیں۔ اور وہ سیاستداں جو جمہوریت کے طفیل پھلتے ہیں مگر اپنی نادانیوں یا تنگ نظری کے نتیجے میں تمام تر اخلاص کے باوجود درست وقت پر غلط فیصلے یا پالیسیاں اپنا کر دانستہ یا نادانستہ طور پر نہ صرف اپنے بلکہ جمہوری عمل کے لیے بھی طویل المیعاد نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ اور جب غلطی کا احساس ہوتا بھی ہے تو کھلے دل سے غیر مشروط تسلیم کرنے کے بجائے اگر مگر سے آلودہ اعتراف کر کے اس اعتراف میں بھی خود کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

جیسے اس وقت فوری مسئلہ یہ درپیش ہے کہ کیا عام انتخابات وقت پر ہو سکیں گے؟ کیونکہ جب تک یہ آئینی شرط پوری نہیں ہوتی کہ نئی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں تازہ حلقہ بندیاں ہوں تب تک الیکشن نہیں ہو سکتے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان پچھلے تین ماہ سے چیخ رہا ہے کہ وہ تب تک اگلے عام انتخابات کی تیاری شروع نہیں کر سکتا جب تک پارلیمنٹ اس بابت کسی قانونی نتیجے پر نہ پہنچ جائے۔ یہ مسئلہ کسی ایک پارٹی کا نہیں تمام سیاسی جماعتوں کا سانجھا ہے۔ اگر انھیں انتخابی سیاست کرنی ہے تو یہ آئینی اڑچن دور کرنی پڑے گی۔

مگر ہر جماعت اسے قومی و جمہوری مستقبل کی عینک سے دیکھنے کے بجائے انفرادی مفادات کے عدسے سے دیکھ رہی ہے۔ یا تو اس معاملے میں حمایت بھی بطور احسان کر رہی ہے یا پھر ماضی کے آئینے میں کھڑی بال سنوار رہی ہے کہ چونکہ فلاں پارٹی نے پچھلی بار میرے ساتھ یہ کیا تو اس بار حساب برابر کرنے کی میری باری ہے۔جیسے پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں تو نئی حلقہ بندیوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو اختیار دینے کے بل کی عشوے غمزے دکھانے کے بعد حمایت کر دی مگر اب سینیٹ میں یہ بل پھنسا ہوا ہے کیونکہ وہاں پیپلز پارٹی کی عددی اکثریت مسلم لیگ ن سے زیادہ ہے اور اس کا رویہ اس بوڑھی عورت کا سا ہے کہ اگر میں اپنا آذان دینے والا مرغا بغل میں داب کے نکل گئی تو گاؤں میں صبح نہیں ہو گی۔

اس بابت پیپلز پارٹی کے ایک گرگِ باران ِ دیدہ میاں منظور وٹو نے عجیب و غریب تاویل پیش کی۔فرماتے ہیں ’’قومی اسمبلی میں تو ہم نے اس لیے بل کی حمایت کر دی کیونکہ ہم جانتے تھے کہ وہاں ہماری عددی اکثریت نہیں ہے۔مگر سینیٹ میں ہم اپنے کارڈز مہارت سے کھیلیں گے جہاں ہماری اکثریت ہے۔اور ہماری قیادت وہی فیصلہ کرے گی جو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہوگا‘‘۔ آگے فرماتے ہیں کہ حکمران مسلم لیگ کا یہ خدشہ بے بنیاد ہے کہ انتخابات کے انعقاد میں تاخیر ہو جائے گی۔یہ انتخابات 1998ء کی مردم شماری کی بنیاد پر بھی تو ہو سکتے ہیں۔

یعنی کسی بھی بل کی حمایت یا مخالفت آئینی و اصولی بنیاد پر نہیں بلکہ اڑنگے کی بنیاد پر ہے۔ جب 2014ء میں عمران خان اور طاہر القادری پارلیمنٹ کا محاصرہ کیے ہوئے تھے تب پیپلز پارٹی نے اپنا سارا وزن میاں صاحب کے پلڑے میں یہ کہتے ہوئے ڈال دیا تھا کہ ہم نواز شریف کو نہیں بلکہ جمہوری عمل کو بچانے کے لیے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مگر نئی حلقہ بندی کی آئینی ضرورت کو پیپلز پارٹی فروغِ جمہوریت کے بجائے آج شائد شعوری یا لاشعوری انداز میں اس نظر سے دیکھ رہی ہے کہ اگر ہم اگلے عام انتخابات میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں نہیں تو یہ انتخابات موجودہ مردم شماری کی بنیاد پر ہوں یا پرانی کی بنیاد پر ہماری بلا سے۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو جمہوری اقدار پیپلز پارٹی سے زیادہ عزیز ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اگر اس وقت پیپلز پارٹی اقتدار میں ہوتی اور اسے یہی حلقہ بندیوں والا بل منظور کروانے کا مرحلہ درپیش ہوتا تو نون بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ وہی کرتی جو پیپلز پارٹی اس وقت کر رہی ہے۔

مسلم لیگ ن نے الیکشن ایکٹ کا ترمیمی مسودہ چابکدستی کے ساتھ پہلے تو خراٹے لیتی سینیٹ کی الماری سے نکال لیا اور پھر عددی اکثریت کے اعتبار سے قومی اسمبلی سے منظور کروا کے نواز شریف کی عدالتی نااہلی کے باوجود پارٹی صدارت کے لیے راہ ہموار کر دی۔ اس چلتر پن کے بعد اسے یہ توقع نہیں باندھنی چاہیے کہ حزبِ اختلاف بالخصوص پیپلز پارٹی کی جانب مفاہمتی ہاتھ بڑھانے کے بھی خاطر خواہ نتائج حاصل ہو پائیں گے۔کیونکہ جہاں اسکور برابر کرنے کی سیاست ہو وہاں بڑے کینوس کے سیاسی کلچر کا عادی ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔

دونوں جماعتوں کو اگرچہ عمران خان درپیش ہیں مگر دونوں جماعتیں نوے کی دہائی کا باہم سیاسی سلوک ، چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل نہ کرنے کی رنجش، این آر او قبول کر کے ڈکٹیٹر سے سودے بازی کے طعنے، عدلیہ بحالی کے وعدوں سے ’’وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے‘‘ کہہ کر پھر جانے، کالا کوٹ پہن کر یوسف رضا گیلانی کی بطور وزیرِ اعظم نااہلی میں عدالت کی مدد کرنے اور ڈاکٹر عاصم کیس سمیت لاتعداد چھوٹے بڑے معاملات سے باہر نکلنے اور انھیں پسِ پشت ڈالنے اور یہ تمیز کرنے پر بھی آمادہ نہیں کہ کون سی قانون سازی کے مرحلے میں پوائنٹ اسکورنگ اور مفاداتی سیاست آگے بڑھانا جائز ہے اور کس قانون سازی کو سیاسی تلخیوں کے قرضے اتارنے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے ملک، قوم اور جمہوریت کے بڑے کینوس میں دیکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے۔

یقین نہیں آتا کہ یہ پاکستان کی دو سب سے معمر گرم و سرد چشیدہ پارٹیاں ہیں جو اس عمر میں بھی چھپن چھپائی اور ٹام اینڈ جیری کے دور سے باہر نہیں نکل پارہیں اور طعنے عمران خان کو دیتی ہیں کہ اسے سیاست کی الف ب کا بھی پتہ نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے