ترجیحات

ترجیحات کا تعین طے کر تا ہے کہ آپ کی منزل کیا ہے؟

ایک ہفتے کے لیے جرمنی میں ہوں۔کچھ دیر پہلے ارفرٹ (Erfurt) سے واپسی ہوئی۔ دن یہاں کی یونیورسٹی میں گزارا جہاں پاکستانی نژاد ڈاکٹر جمال ملک کی سربراہی میں‘ مسلمانوں کی مذہبی و تمدنی تاریخ کے مطالعہ کے لیے ایک شعبہ قائم ہے۔ پاکستان، ایران اور بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک کے طلبا و طالبات ابلاغیات، فلسفہ، لسانیات، ادب اور الٰہیات سمیت کئی اہم موضوعات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر جمال ملک اٹھاون برس سے جرمنی میں ہیں مگر پاکستان کا ذکر ‘وطنِ عزیز‘ کے طور پر کرتے ہیں۔ حسین محمد جیسے پی ایچ ڈی کے کئی طالب علموں کے ساتھ طویل نشست رہی۔ ان کی علمی استطاعت قابلِ رشک تھی۔

ارفرٹ اپنے اندر صدیوں کی تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کی یونیورسٹی میں مارٹن لوتھر نے پڑھا اور اس شہر میں رہ کر اپنا علمی کام کیا۔ سماجی علوم کے عظیم عالم اور فلسفی میکس ویبر کا تعلق بھی یہیں سے تھا۔ ارفرٹ یونیورسٹی کی لائبریری میں ایک گوشہ ڈاکٹر این میری شمل کے متروکات کے لیے وقف ہے۔ وہ خود اپنی اسناد، ڈائریاں، کتب اس لائبریری کو دے گئی تھیں۔ یہاں ان کے وہ اعزازات رکھے ہیں جو حکومتِ پاکستان نے ان کو دیئے۔ ان کی ڈائری میں ڈاکٹر جاوید اقبال کی آٹو گراف نما ایک تحریر بھی دیکھی جس کے ساتھ 1962ء کی تاریخ درج تھی۔

ایک دن پہلے برلن کی ایک یونیورسٹی میں’شعبہ برائے مطالعہ جدید استشراق‘ (Centre of Modern Oriental Studies) میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں ڈاکٹر ریٹز (Dr Dietrich Reetz) اور ان کے شعبے کی دو خواتین محققین سے تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ اہلِ علم کا یہ حلقہ ‘جنوبی ایشیا میں اسلام‘ کو اپنی علمی سعی و جہد کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر ریٹز کا مو ضوع دیوبند کی علمی و فکری تاریخ ہے۔ اس موضوع پر ان کی معلومات کی وسعت اور تازگی حیرت انگیز تھی۔ وہ جانتے تھے کہ آج دارالعلوم دیوبند میں کیا ہو رہا ہے۔ انہیں یہ معلوم تھا کہ مو لا نا فضل الرحمن کا تازہ ترین سیاسی موقف کیا ہے۔

منگل کو ‘برلن برانڈنبرگ اکیڈمی آف سائنسز‘ جانا ہوا۔ یہاں محققین کی ایک جماعت تاریخِ قرآن مجید پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کو تین دائروں تک پھیلا رکھا ہے۔ ایک: متن کی تاریخ جس میں وہ قدیم ترین نسخوں تک رسائی کی کوشش میں ہیں اور انہوں نے کئی نایاب نسخہ دریافت بھی کیے ہیں۔ دوسرا : نسخوں کا باہمی مطالعہ اور تیسرا: تفسیر ہے، جس میں یہ دیکھا جا تا ہے کہ قدیم آسمانی صحائف اور قرآن مجید کی تعلیمات یا واقعات کے بیان میں کہاں فرق اور کہاں ہم آہنگی ہے۔
اس ٹیم میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ ایک سے میں نے جب اس کے نتائجِ تحقیق کے بارے میں پوچھا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ علمی منصوبہ ان اعتراضات کو ختم کر دے گی جومستشرقین کی جانب سے قرآن مجید کی تاریخی حیثیت پر کیے جاتے ہیں۔ اب تک اس کا غیر منقطع تاریخی تسلسل سامنے آیا ہے۔

جرمنی کے علمی اداروں اور یہاں مو جود محققین کے علمی انہماک نے مجھے بے چینی میں مبتلا کر دیا۔ یہ بے چینی کئی سوالات میں ڈھلتی گئی:
۱۔مغرب کی ترقی کا راز‘ کیا اس کی علم دوستی ہے؟
۲۔رسوخ فی العلم کیا محض کھیل تماشا ہے؟
۳۔ ہمارے ملک میں ایسی علمی روایت کیوں مستحکم نہیں ہو سکی؟

بظاہر اُن مو ضوعات کا جرمنی یا جرمن قوم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں جن پر ان اداروں میںتحقیق ہو رہی ہے۔ اس کے باجود وہ ان پر وسائل خرچ کر رہے ہیں اور خلوت میں بیٹھے لوگ ان موضوعات پر دادِ تحقیق دے رہے ہیں جن سے انہیں کوئی براہ راست فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ یہ وسائل صرف حکومت نہیں، وہاں کے امرا اور نجی شعبہ بھی فراہم کر رہا ہے۔ قدیم جرمنی اور یورپ میں اکیڈمیز کا تصور موجود تھا۔ یہ ان لوگوں نے قائم کیں جو علم دوست تھے۔ یہ اکیڈمیاں مختلف تحقیقی و علمی منصوبوں کے لیے وسائل فراہم کرتی تھیں۔ اسی طرح وقف کا تصور تھا۔ کوئی امیر آدمی مرتا تو اپنی دولت علمی ترقی کے لیے وقف کر جاتا۔ یہ ادارے آج بھی کام کر رہے ہیں۔ مطالعہ استشراق کے لیے قائم ادارے کو ایسی ہی ایک اکیڈمی وسائل فراہم کر رہی ہے۔

بظاہر جرمنی سے غیرمتعلق دکھائی دینے کے باوجود‘ ان تحقیقی منصوبوں سے دو باتیں بڑی واضح ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے نتیجے میں‘ جنوبی ایشیا پر تحقیق کر نے والے جرمنی کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یوں یہ تحقیق اس خطے میں جرمنی کے بارے میں سفارت کاری کا کام سر انجام دے گی۔ دوسرا یہ کہ علم کے لیے دنیا ان مو ضوعات پر جرمنی کی محتاج ہو گی۔ کل ریاستی سطح پر جو پالیسی بنے گی‘ اس کی بنیاد آج کی اس تحقیق پر ہو گی۔ یوں امامت کا منصب جرمنی کے پاس ہو گا۔ آج جسے ہم مغربی فلسفہ کہتے ہیں‘ ا س کا مرکز جرمنی ہے۔ کانٹ، ہیگل، مارکس، اینجلز، گوئٹے ان سب کا تعلق جرمنی سے تھا۔

ایساعلمی کام صرف جرمنی نہیں‘ ترقی یافتہ دنیا کے ہر حصے میں ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا کی قیادت ان اقوام کے ہاتھ میں ہے۔ برتری کا پیمانہ علم ہے۔ جو قوم علمی بر تری رکھتی ہے‘ لازم ہے کہ امامت کا منصب بھی اسی کے پاس ہو۔ جرمنی جیسے ممالک اس راز کو جانتے ہیں۔ اس لیے علمی تحقیق اور غور و فکر پر بے پناہ وسائل خرچ کرتے ہیں اور آج اسے اپنی ترجیح بنائے ہوئے ہیں۔ یقینا اس کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں لیکن وہ ضمنی‘ بلکہ اس مقصدکے مقابلے میں حقیر ہیں۔
میں نے اس سفر میں یہ بھی جانا کہ رسوخ فی العلم کھیل تماشا نہیں۔ یہ پتّہ ماری کا کام ہے۔ علم جب تک طویل عرصہ خلوت میں نہ گزارے‘ اس کی نمو نہیں ہو سکتی۔ اسے شعوری طور پر اپنی ترجیح بنانا پڑتا ہے۔ طویل ریاضت کے بعد ہی علم اپنی کرامت دکھاتا ہے۔ معاشرہ جب تک علم دوستی کو بطور قدر اختیار نہیں کرتا، ”راسخون فی العلم‘‘ پیدا نہیں ہو تے۔

پاکستان میں علم دوستی کی قدر مستحکم نہیں ہو سکی۔ جہالت کو بطور علم پذیرائی ملی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ معاشرہ سنگ ریزے اور ہیرے میں فرق کر نے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ لوگ ان امور پر ماہرانہ رائے دیتے ہیں جن کے ابجد سے واقف نہیں ہوتے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے حوالہ بنا دیا جاتا ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ علم کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل کبھی ہماری ترجیح نہیں بن سکی۔ مذہب، سیاست، صحافت، ہر شعبے میں موجود لوگوں کی ترجیحات پر ایک نظر ڈالیے۔ کہیں علم دکھائی نہیں دے گا، الّا ماشاء اللہ۔ اہلِ مذہب میں‘ جن کا بظاہر علم سے کوئی راہ و رسم ہے‘ انہیں بھی یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اگرکوئی علم کی بات کرتا ہے تو اس کا منہ کیسے بند کیا جائے۔ اس کے لیے آزمودہ نسخہ کسی پر کوئی لیبل چسپاں کر دینا ہے۔ دیگر کے احوال تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے شعبوں کا ہے۔ آج سیاست کے میدان میں ایک
اہم معرکہ درپیش ہے۔ اہلِ سیاست اس سے بے خبر ہیں۔ اہلِ صحافت کی ترجیحات دیکھنا ہوں تو ٹاک شوز اور کالموں کے موضوعات پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔

علم کی دنیا میں فتویٰ سازی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ علم کبھی فتوے کی زبان میں گفتگو نہیں کرتا۔ شاید اسی لیے ہماری روایت میں مفتی کا منصب علم کے دیگر شعبوں سے الگ رکھا گیا۔ علم کی دنیا میں مکالمہ ہوتا ہے۔ اختلاف ہو تو استدلال کیا جا تا ہے اور فیصلہ اہلِ علم اور وقت کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ علم حاکم ہو تو سیاست کے موضوعات بھی بدل جاتے ہیں۔

جرمنی بھی ان دنوں ایک سیاسی بحران کا شکار ہے۔ وہاں بھی مذہبی گروہوں کے اختلاط کا مسئلہ درپیش ہے۔ میں اس مسئلے پر الگ سے لکھوں گا۔ اس وقت سفر کا صرف یہ تاثر بیان کرنا مقصود ہے کہ ہم بحیثیت قوم تعمیری ایجنڈے سے کوسوں دور ہیں۔ ہم ابھی تک یہ بھی دریافت نہیں کر سکے کہ علم کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ ہماری ترجیحات تو دوسری ہیں۔ جب سفر کا رخ ہی درست نہ ہو تو منزل کی امید کیسی؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے