ماہر فنون لطیفہ

’’سنائو جان برادر کیسے حال ہیں ؟‘‘
’’بالکل ٹھیک ہوں، یہ جان برادر سے ایک لطیفہ یاد آیا ایک شخص اپنے دوست کے ساتھ‘‘
’’لطیفے کو چھوڑو وہ تم نے جس ملازمت کے لئے اپلائی کیا تھا کیا بنا ؟‘‘
’’بننا کیا ہے، درخواست بھیج دی ہے، ایک شخص جب ملازمت کے لئے انٹرویو دینے گیا تو انٹرویو لینے والے نے‘‘
’’یہ تم لطیفہ سنانے لگے ہو ؟‘‘
’’ہاںذرا زحمت کرکے سن لو، بالکل نیا لطیفہ ہے، تو انٹرویو لینے والے نے ‘‘
’’گزشتہ دنوں ایک جگہ سے تمہیں انٹرویو کے لئے بلایا بھی گیا تھا اس کا کیا بنا؟‘‘
’’یار لعنت بھیجو، تم کیا ایک چیز کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتے ہو ؟‘‘
’’چلو لعنت بھیجتا ہوں، یہ کہو آج کل کیا لکھ پڑھ رہے ہو؟‘‘
’’کل ہی ایک کتاب ختم کی ہے، اس میں ایک لطیفہ تو کمال کا تھا ،بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا ‘‘
’’تمہارا سب سے چھوٹا بچہ بیمار تھا اس کا کیا حال ہے؟‘‘
’’بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ بازار جائو اور‘‘
’’بچے کے لئے دوا لے کر آئو؟‘‘
’’ہا ہا ہا شکر ہے تم میں بھی مزاح کی حس پیدا ہوئی ہے، مگر پورا لطیفہ تو سن لو‘‘
’’یار لطیفوں کی جان چھوڑو، یہ بتائو تم آج کل عارضی ملازمت کر رہے ہو، اس کے پرماننٹ ہونے کا بھی کوئی امکان ہے ؟‘‘
’’اگر خدا کو منظور ہوا۔تو پرماننٹ بھی ہو جائے گی۔ ویسے وہ اب ٹھیک ہے !‘‘
’’کون ٹھیک ہے ؟‘‘
’’یہ تمہارے حافظے کو کیا ہو گیا ہےتم ابھی بچے کے بارے میں پوچھ رہے تھے نا۔وہ اب ٹھیک ہے یہ حافظے سے یاد آیا ۔
’’چار بوڑھے ایک جگہ بیٹھے اس پر گرمبل کر رہے تھے کہ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ایک بوڑھا‘‘
’’میں نے یہ لطیفہ سنا ہوا ہے !‘‘
’’چلو خدا کا شکر ہے کہ تم نے زندگی میں کوئی لطیفہ تو سنا، اگر تم دن میں ایک دو لطیفے سنو اور سنائو تو تمہیں کبھی کمر میں ’’چُک‘‘ نہ پڑے !‘‘
’’یہ لطیفوں کا ’’چُک‘‘ پڑنے سے کیا تعلق ہے ؟‘‘

ممکن ہے لطیفوں میں چُک سے کوئی تعلق نہ ہو، مگر کچھ نہ کچھ تعلق ہوتا ضرور ہے۔
ایک شخص کا دم گھٹتا تھا اور آنکھوں تلے اندھیرا چھایا رہتا تھا کسی ڈاکٹر نے یہ کہہ کر اس کے دانت نکلوا دیئے کہ یہ سب کچھ دانتوں کی خرابی کی وجہ سے ہے۔کسی نے اسے تیز جلاب دیئے اور ایک نے تو یہ کہہ کر اسے زندگی سے مایوس کر دیا
کہ تمہیں کینسر ہے اور چھ ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہ سکو گے۔ مریض نے اس پر مایوس ہونے کی بجائے زندگی کے بقیہ دن عیش وعشرت میں بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ اس نے نئے کپڑے خریدے اور اپنے درزی کے پاس گیا درزی نے اس کے کالر کا ناپ لیا اور شاگرد کو ناپ لکھواتے ہوئے کہا ’’پندرہ انچ‘‘ مریض نے کہا ’’میں کالر چودہ انچ سائز کا پہنتا ہوں‘‘ درزی نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے شاگرد کو دوبارہ پندرہ انچ لکھنے کے لئے کہا ۔
اس پر مریض نے ایک بار پھر احتجاج کیا تو درزی نے فیتہ ایک طرف رکھا اور کہا ’’جناب !اگر آپ آئندہ بھی پندرہ انچ کالر کے بجائے چودہ انچ کالر پہنتے رہے تو آپ کے کان اسی طرح سائیں سائیں کرتے رہیں گے اور دم اسی طرح گھٹتا محسوس ہو گا‘‘

’’او تمہارا بیڑہ غرق! تم تو لطیفہ سنا گئے ہو!‘‘
’’ہا ہا ہا !آخر ساری زندگی ’’فنون لطیفہ‘‘ کی خدمت میں گزاری ہےیہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے ۔کرکٹ میچ کے دوران ایک بائولر نے جو بائیں ہاتھ سے‘‘
’’پھر لطیفہ !‘‘
’’ہاں، ذرا سنو تو !بائولر نے بائیں ہاتھ سے جب گیند‘‘
’’میں مومن ہوں اور مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈساجاتا،دوسرا لطیفہ میں نہیں سنو گا۔ خداحافظ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے