دھرنا ۔۔۔ کس کو کیا ملا؟

بالآخر 21 دن بعد اسلام آباد میں تحریک لبیک یارسواللہ کے دھرنے کا وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے ساتھ دی اینڈ ہوگیا. دھرنے کے پس منظر اور پیش منظر سے یوں تو ہر پاکستانی واقف ہے تاہم اس دھرنے سے چند ایسے حکومتی ،انتظامی اورعوامی پہلو پہلی بار آشکار ہوگئے جنہیں جاننا، سمجھنا اور پھر ان پرغور کرنے کی ضرورت ہے.

دھرنے کے آٹھارویں روز یعنی آپریشن سے قبل تک وزیر داخلہ احسن اقبال برملا یہ کہتے تھے کہ چند سو لوگوں نے سڑکیں بلاک کرکھی ہیں ، چاہیں تو چند گھنٹوں میں دھرنا کا مقام خالی کرادیں گے. احسن اقبال کا یہ تکرارنہ صرف غلط ثابت ہوابلکہ پولیس کی طرف سے پہلا شیل ہوا میں چلتے ہی لبیک کا نعرہ ایسے لگا کہ پورا ملک جام ہوکر رہ گیا. دو روز ملک جام ہوا تو وزیر داخلہ سمیت ہر ذی شعور کو مذہبی طاقت کابھرپوراندازہ ہوا.

دھرنے نے حکومتی اور انتظامی نااہلی کو سامنے لانے کے علاوہ حکمران جماعت مسلم لیگ میں حکمت عملی کے فقدان کو بھی آشکار کردیا. ایک وزیر کو بچانے کیلئے جس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا اس کے بارے میں واقفین کہتے ہیں کہ یہ ہٹ دھرمی خود پارٹی کیلئے ایک ایسا چیلنج بن گیا جس کا مستقبل میں اچھے نتائج برآمد ہونے کی بالکل بھی توقع نہیں.

دھرنے میں مذاکرات کے بعد آپریشن اور پھر مذاکرات کے دور سے یہ بھی واضع ہوگیا کہ حکومت کے پاس اس معاملے کو حل کرانے کیلئے کوئی پر اعتماد حکمت عملی نہیں تھی اور نہ ہی اسے یہ اندازہ تھا کہ وہ کس آگ میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے.

مسلم لیگ ن کا ایک اور اہم پہلو جو اس دھرنے سے بے نقاب ہوا وہ یہ کہ اس جماعت میں ابھی تک نواز شریف کے پائے کا کوئی رہنما موجود نہیں ہیں . اگر ہوتا تو سیکنڈ کمانڈ کے طور پر فیصلہ کرکے دھرنے کے معاملے کو احسن طریقے سے ختم کرتا. ناقدین کا کہنا ہے کہ دھرنا مسلم لیگ کی لیڈر شپ کیلئے کٹھن امتحان تھا مگر دوسرے ہی راؤنڈ میں اس کے قدم لرزنے لگے .

دھرنے کی وجہ سے تحریک لبیک یارسواللہ کو شہرت کے ساتھ ساتھ شہید بھی مل گیا. کل تک جو جماعت پنڈی کے ایک محلے تک محدود تھی اب اس کا ڈنکا پورے ملک میں بج گیا .

ختم نبوت کے نام پر اس دھرنے نے پولیس کے کردارپر بھی سوالیہ نشان لگا دیا. اور اس چیز کی شدت سے کمی محسوس کی گئی کہ پولیس کو ایسے حساس معاملات سے نمٹنے کیلئے مزید ذہنی اور جسمانی تربیت درکار ہے.

یہ معلوم ہوا کہ کسی بھی ایسے معاملے کو حل کرنے کیلئے پہلے سے ہی تمام اداروں کو یک جان ہوناازحد ضروری ہے . اگر کوئی ایک ادارہ کریڈٹ لینے کیلئے پہل کرتا ہے یا خود کو اعلیٰ سرٹیفکیٹ دلانے کیلئے ون وے استعمال کرتا ہے تو نتائج مثبت کے بجائے منفی ہی ملیں گے.

لبیک یارسواللہ کے دھرنے کے کئی منفی پہلو ہیں لیکن جو اہم اور مثبت پہلو پہلی بار سامنے آیا وہ یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں اورمختلف فرقوں نے اپنے فروعی اور مسلکی اختلافات بالائے طاق رکھ کر بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کیا. مذہبی یا مسلکی جماعتوں میں ایسی باہمی ہمدردی کی مثال شازو نادر ہی ملتی ہے .

اب چونکہ دھرنا ختم ہوچکا ہے اور شرکاء اپنے اپنے گھروں اور علاقوں کو روانہ ہورہے ہیں لیکن اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد میں ہونے والے 22 روزہ مظاہرے نے یہ سوال ہر پاکستانی بالخصوصی اداروں اور حکمرانوں کیلئے چھوڑ دیا ہے کہ کیا ملک میں معاملات یا مسائل حک کرنے کاواحد راستہ “دھرنا” ہی ہے. کیا دھرنے کے بغیر مسائل یا معاملات حل کرنے کا کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے.

حکمرانو‌ں اور اداروں کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ پہلے تو ایسا کوئی ایشو پیداہی نہ ہو جس کی وجہ سے عوامی جذبات مجروع ہوں اور کوئی تحریک جنم لے . بالفرض اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوبھی جاتا تو اسے حکمت عملی ، دانشمندی اور خوش اصلوبی سے حل کرنے کی خلوص نیت سے بھرپور کوشش کرنی چاہیے تاکہ ملک میں اخوت ، خوشحالی اورترقی کا پہیہ پھر کبھی رکنے نا پائے …

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے