دھرنا اور حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی

کسی بهی ملک کی ترقی کے لئے حکمرانوں کی درست حکمت عملی کلیدی کردار ادا کرتی ہے – درست حکمت عملی وضع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حکمران اپنے ملک کے مسائل کا ادراک رکهتے ہوں اور ملک کے سیاسی حالات و معاشرتی صورتحال سے بخوبی واقف ہوں – حالیہ پاکستان کی بدترین صورتحال پاکستانی حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس ملک پر ایسے افراد حکمرانی کر رہے ہیں جو نہ زیادہ پڑهے لکهے ہیں اور نہ ہی وہ سیاسی مسائل کی گهتیاں حکمت عملی کے ذریعے سلجهانے کی طاقت وقدرت رکهتے ہیں، وہ نہ معاملہ فہمی کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی ہنگامی صورتحال کو دانشمندی سے کنٹرول کرنے کی استطاعت رکهتے ہیں ، بس اقتدار اور اعلی عہدوں پر وہ بزور طاقت پہنچے ہوئے ہیں، مادی قدرت کے بل بوتے پر وہ حکمران بنے ہوئے ہیں،
جس کے سبب ہم دیکهتے ہیں کہ جب بهی پاکستان کے اندر ناگوار حالت پیدا ہوتی ہے تو ہمارے حکمران منطق اور دانشمندی سے اس پر قابو پانے کی کوشش کرنے کے بجائے ناقص حکمت عملی اپنا کر جلتی پر تیل والا کام کرکے اسے مزید گهمبیر بنا دیتے ہیں ،

فیض آباد والا دهرنا ملک کے آئین سے ختم نبوت کی شق میں ترمیم کرنے کی ٹهوس غلطی سے وجود میں آیا – بدون تردید کچهہ نادانوں کی اس غلط حرکت نے پورے مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کیا، ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) پر نبوت کا خاتمہ ہوا، ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا – پیغمبر ختم مرتبت پر ایمان رکهنے والوں کے لئے جاہلوں کا یہ برا اقدام ناقابل برداشت ہونا فطری تها- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں عوام کی اکثریت مسلمان ہونے کے باوجود ختم نبوت کو ملک کے آئین سے خارج کرنے کی جسارت کی جرات ان میں کیسے پیدا ہوئی ؟ جواب یہ ہے کہ اس ملک کے حکمرانوں کا یہ پختہ اعتقاد ہے کہ ریاستی طاقت کی زمام ہاتهہ میں لینے کے بعد وہ ملک میں اختیار کل کا مالک بن جاتے ہیں، وہ ریاستی طاقت سے جو اور جس طرح کا استفادہ کرنا چاہیں کرسکتے ہیں ،کوئی انہیں روک نہیں سکتا- وہ اپنے کو بادشاہ مطلق اور عوام کو رعایا سمجهتے ہوئے ان پر اپنی بادشاہت کا رعب جماکر محکوم رکهنا چاہتے ہیں، عوامی مسائل کو حل کرنے کی طرف ان کی بہت کم توجہ ہوتی ہے-

ہمارے ملک پر قابض حکمرانوں کے متکبرانہ رویے کے سبب فیض آباد والا دهرنا ملک گیر دهرنے میں بدل گیا- اگر اسی وقت دهرنا دینے والوں کے مطالبات پر حکمران کان دهرتے، آپس میں سر جوڑ کر مشورہ وتبادلہ خیالات کرکے مطالبات حل کرنے کا راستہ نکال لیتے، ختم نبوت والا مسئلہ کھڑا کرکے مسلم اکثریت کو مشتعل کرنے والے سازشی عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ، وفاقی وزیر قانوں زاہد حامد اور پنجاب کے صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کو اپنے عہدوں سے نااہل قرار دے کر فارغ کردیتے، تو پاکستان میں کوئی جانی ومالی نقصان ہوئے بغیر معاملہ رفع دفع ہوجاتا ،مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ سازشی عناصر کو ریاستی طاقت کی چهتری تلے محفوظ رکهتے ہوئے دهرنے کے شرکاء کو مار پیٹ کر کے بهگاکر دهرنا ختم کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے، نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کے غم وغصے کی آگ بهڑکی اور دهرنے نے جنگ داخلی کی شکل اختیار کرکے پورے پاکستان کے عوام کو میدان میں لے آئے، پولیس اور عوام میں تصادم شروع ہوا اور بہت ساری جانیں ضائع ہوگئیں، حکومتی املاک و اموال کو نقصان پہنچا اور عوامی طاقت نے حکومت کے ایوانوں کو ہلا کر رکهہ دیا- جب حکمرانوں کو یقین ہوگیا کہ عوامی طاقت کے سامنے ہماری بس چلنے والی نہیں, تو وہ دهرنے کے شرکاء کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے اور وزیر قانون زاہد حامد سے استعفی لے لیا، ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے ،

لیکن صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کا جرم بهی زاہد حامد کے جرم سے کم تر نہیں، پاکستان سے لا تعداد شہریوں کو لاپتہ کرانے کے گناونے جرم میں وہ ملوث ہے، حکومت پاکستان کو چاہیے جلد از جلد اسے بهی عہدے سے ہٹادیا جائے اور ایڈوکیٹ ناصر شیرازی سمیت لا پتہ افراد کو بازیاب کراکے اپنی ذمہ داری کا ثبوت پیش کرے- ابهی تک لا افراد کے حوالے سے حکمران ناقص حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کررہے ہیں جو حکمرانوں کے لئے نیک شگون نہیں- انہیں لاپتہ کئے ہوئے افراد کے محب وطن شہری ہونے کو سمجهنے کے لئے کیا یہ کافی نہیں کہ لاپتہ ہونے والے افراد کے ورثاء سمیت مظلوم افراد کے دفاع میں احساس ذمہ داری رکهنے والوں نے میدان میں نکل کر تظاہرات کئے، ریلیاں نکالیں، اپنی آواز ذمہ دار افراد کے کانوں تک پہنچائی لیکن منطقی انداز میں، دلیل قاطع کے ذریعے آواز حق بلند کی گئی نہ شدت پسندی کا مظاہرہ کیا گیا- کسی انسان کو جانی نقصان پہنچانے کا تصور تو کیا کہیں پر حکومتی املاک کو ہاتهہ تک نہیں لگایا گیا- گلگت بلتستان سمیت آل پاکستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے لوگوں نے جلسے کئے، جلوس نکالے ،مگر پر امن طریقے سے ،یہاں تک کہ تظاہرات کے لئے ایسے مقامات کا انتخاب کیا گیا جہاں پر عوام کی رفت وبازگشت کا رش بہت کم رہتا ہے-

خود حکمرانوں نے یہ سارا منظر اپنی آنکهوں سے مشاہدہ کیا، سب کچهہ دیکهہ لیا ہے تو ہونا تو یہ چاہیے تها کہ حکمران ایسے پر امن طریقے سے تظاہرات کرنے والوں کے جائز مطالبات کو فی الفور پاس کرکے ان کے مسائل کو حل کرتے, مگر حکمرانوں نے ان کی شرافت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے ابهی تک نہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا اور نہ ہی اس قبیح اقدام میں ملوث افراد کو قانونی کٹہیرے میں کهینچ کر قانونی طور پر کاروائی کرنے میں کامیاب ہوئے- کیا حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کے لئے اس سے واضح مثال مل سکتی ہے؟

اور ہمارے حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کی تازہ مثال دیکهیں کہ ملک کی جگہ جگہ ہڑتال دهرنا اور عوام گوناگون مسائل لئے میدان میں ہیں، وہ انصاف کے لئے ترس رہے ہیں ،گلگت بلتستان کے عوام حقوق دو ٹیکس لو کا مطالبہ کررہے ہیں- ملک کی ایک بڑی تعداد لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں، مگر ان سارے عوامی مسائل اور مطالبات کو پس پشت ڈال کر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سعودی عرب کے لئے روانہ ہوگئے ہیں ۔ اس سے یہ بات سمجهنے میں دیر نہیں لگتی کہ ہمارے حکمران اغیار کے اشارے پر چلتے ہیں – گزشتہ روز امریکی ایما پر وجود میں آنے والے ۴۱ممالک کے اتحاد کا افتتاحی اجلاس بھی ہو چکا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے اعلی عہدہ داروں کے دورہ سعودی عرب میں غور کرنے والوں کے لئے سمجهنے کی بہت سارے چیزیں پنہاں ہیں, البتہ اس حوالے سے ابهی کچهہ کہنا قبل از وقت ہوگا- بے شک ملک کی ترقی کے لئے حکمرانوں کی درست حکمت عملی ناگزیر حقیقت ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے