بات سے بات

’’ٹوئیٹ‘‘ کہتے ہیں چہچہانے کو اور جب پرندہ چہچہانا بھول جائے تو سمجھ لیں بیمار ہے، اس نے اپنے انڈوں کی طرف بڑھتے ہوئے سانپ کو دیکھ لیا ہے یاسر پر منڈلاتے ہوئے شکرے پر نظر پڑ گئی ہے اس لئے چہچہانا بھول کر اس معصوم نے چپ سادھ لی ہے۔ وجہ جو بھی ہو گزشتہ چند روز سے چند ایسے پرندوں نے چہچہانا چھوڑ رکھا ہے جو ’’ارائونڈ دی کلاک‘‘ یعنی ہر وقت چہچہاتے رہتے تھے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ دھرنا ختم ہونے پر چہچہانا پھر سے شروع ہو جائے گا اور گمشدہ رونقیں واپس لوٹ آئیں گی۔ تلیر بھی اک چھوٹا سا بہت ہی کیوٹ سویٹ سا ایسا پرندہ ہے جو درخت میں چھپا ہو تو اسی کا حصہ دکھائی دینے کے سبب نظر نہیں آتا لیکن برا ہو اس عادت کا کہ ہر وقت ہی ’’ٹوئیٹتا‘‘ یعنی چہچہاتا رہتا ہے اور اسی وجہ سے مارا بھی جاتا ہے۔ کم بولنے کی طرح کم چہچہانا بھی اچھے مینرز کی نشانی ہے۔ قدرت نے دو کانوں اور دو آنکھوں کے ساتھ زبان صرف ایک اس لئے دی ہے کہ دیکھو اور سنو زیادہ بولو کم کہ یہ عافیت کی نشانیوں میں سے ایک ہے لیکن کچھ لوگوں نے بات بے بات پر بولنے چہچہانے کی جیسے قسم کھا رکھی ہو۔ بھلا ہو دھرنے کا جس نے انہیں ’’جبری ریسٹ‘‘ پر مجبور کردیا ورنہ ان کی چونچیں بند ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ن لیگ ووٹ بینک کے حوالہ سے کتنی’’بینک کرپٹ‘‘ ہوئی، اس کا فیصلہ تو الیکشن پر ہی ہوگا لیکن نقصان سیاسی سیٹھوں کو ناقابل تلافی قسم کا پہنچ چکا۔ کبھی کبھی شکار وقتی طور پر تو بچ نکلتا ہے لیکن زخم اتنا کاری لگ چکا ہوتا ہے اور وہ گھائل اتنا ہوتا ہے کہ بالآخر بچ نہیں پاتا۔ اندازہ لگائیں وہاڑی کے طاہر اقبال چوہدری جیسے ’’منتخب‘‘ بھی اپنے ووٹرز کو یہ تسلیاں دیتے دکھائی دے رہے ہیں کہ’’میں نے نوازشریف کو ووٹ نہیں دیا اوراستعفیٰ بھی دیدوں گا‘‘۔

ان کی اجتماعی طور پر مت ماری گئی ہے۔ ایک کہتی ہے ’’مستعفی نہیں ہورہے‘‘ دوسری طرف سے خبر آتی ہے ’’ہوگئے‘‘۔ وزیر داخلہ ایک طرف پورے ملک کا وزیر داخلہ ہونے کا دعویدار، دوسری طرف کہتا ہے ’’پنڈی واقعات پر میرا نہیں پنجاب کے وزیر داخلہ کا اثر چلتا ہے‘‘ بندہ پوچھے اگر دارالحکومت کے جڑواں شہر پر بھی آپ کا اثر نہیں، رینجرز رستہ روک لیتے ہیں تو آپ وہاں بیٹھے کون سے ’’امب‘‘ چوس بلکہ چوپ رہے ہیں؟ کیسا عبرت ناک انجام ہے کہ اپنے اپنے شہروں کیا حلقوں میں سہمے ہوئے ہیں، گھروں پر حملے، خرم دستگیر بیچارہ باہر پریشان کہ خاندان کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ جو سلام لینے دینے نہیں جاسکتےوہ ووٹ لینے جائیں گے اور واقعہ بلکہ واردات بھی ایسی نہیں جو بھلائی جاسکے۔ ان کے اندازوں کے برعکس لوگ تو پاناما نہیں بھولے، یہ حرکت کیسے بھول جائیں گے۔جس کا آغاز میں نے دیکھا تھااس کا انجام دیکھنا ہے مجھےپختگی کو زوال لازم ہےاس لئے خام دیکھنا ہے مجھےحادثہ خاص کر گیا تھا جسےوہ سر عام دیکھنا ہے مجھےادھر خورشید شاہ صاحب کا بھی جواب نہیں جو کہتے ہیں سیاست میں مذہبی معاملات کا استعمال مناسب نہیں۔ میں تو اس پر تبصرہ کے بھی قابل نہیں صرف علامہ اقبال کی یاد دلائوں گا جن کے نزدیک ؎’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘اب شاہ صاحب جانیں اور علامہ اقبال اور اگر آپ ان سے فارغ ہولیں تو میں انہیں پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بنیادی نعرے یاد دلائوں گا۔

اسلام ہمارا دینسوشلزم ہماری معیشتجمہوریت ہماری سیاستلفظوں کا آگا پیچھا ہوسکتا ہے، مفہوم یہی تھارہ گیا مذہب اور سیاست کا رشتہ تو شاہ صاحب! ختم نبوت سیاسی نہیں، اساسی بات ہے جس پر ازسرنو غور کرنے سے افاقہ ہوسکتا ہےٹی وی چینلز کی بحالیزاہد حامد کا استعفیٰدھرنوں کا خاتمہکوئی ایک ’’کارنامہ‘‘ ایسا ہے جو تم ’’منتخب‘‘ تحفوں نے سر انجام دیا ہو، سوائے جاتی امراء حاضریوں کے۔ دھرنےکا خاتمہ ابھی ادھورا ہے، کوئی اور بونگی نہ مار بیٹھنا کہ یہ سانپ سیڑھی کا کھیل ہے ’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘‘۔اس سارے رئولے میں ’’حدیبیہ‘‘ کے باقاعدہ، ازسرنو آغاز پر مبارکباد پیش کرنا تو میں بھول ہی گیا تھا۔ مبارک ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے