سب چلتاہے

سب چلتاہےمیںنہیں جانتا کہ ٹی وی اشتہارات یعنی ٹی وی کمرشلز کے لئے بھی کوئی سنسربورڈ ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس کی ترجیحات کیا ہیں؟ معیار کیا ہیں؟ میرے نزدیک ٹی وی کمرشلز بھی تربیت یا یوں کہہ لیجئے کہ ’’بدتربیتی‘‘ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کچھ اور کہنا تو شاید مناسب نہ ہو لیکن اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ہمارے چند ٹی وی اشتہارات خاصے بے مغز اور مضحکہ خیزہوتے ہیں۔ مثلاً آج کل ایک کمرشل بہت دکھایا جارہا ہے کہ ایک نوجوان برخوردار آفس سے واپسی پر بریانی بیگ میں چھپا کر لاتا ہے۔والدہ محبت سے کھانے کا پوچھتی ہیں تو ’’بھوک نہیں ہے‘‘ کا بہانہ بنا کر جھوٹ بولتے ہوئے اپنے کمرے میں جاتا اور چھپ کر اپنی جورو کے ساتھ بریانی کھاتا اور پھر کھرچن کی وجہ سے پکڑا جاتا ہے۔اشتہار کا تعلق کسی صابن سے ہے جو اگر گھر میں موجود ہو تو کھرچن کا نام و نشان غائب ہوسکتا ہے۔ بریانی بھلا ایسی کون سی کستوری ہے جسے ناہنجار برخوردار دو کی بجائے چار چھ افراد خانہ کے لئے نہ لا سکتا تھا لیکن اچھا خاصا کردار بھونڈا، چھچھورا اور کمینہ سا بنانےکے بعد پیغام یہ دیا گیا کہ نوبیاہتا جوڑے بھی ایسی ہی گھٹیا حرکت کریں تو قابل قبول ہوگی۔اک اور اشتہار کی مضحکہ خیزی اور تاریخ مسخی بھی لاجواب ہے۔

اہل خانہ مہمانوںکی آمد پر چائے کی بجائے انہیں کوئی ’’کولا‘‘ٹائپ ڈرنک پیش کرتے ہیں جس پر بدتمیز قسم کے مہمان برے برے منہ بناتے اور ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور کمنٹری ہوتی ہے کہ چائے جیسا روایتی اور محبتی خلوص بھرا مشروب پیش کرنے کی بجائے چاہتوں محبتوں سے عاری ریڈی میڈ قسم کا کالا سا شربت سرو (Serve)کرکے آداب ِمہمان نوازی پامال کئے گئے۔ یہاںمسئلہ موازنہ ’’کولے‘‘ اور’’چائے‘‘ کا ہرگز نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ کولے کی طرح چائے کا بھی ہماری تہذیب و روایات سے کوئی تعلق نہیں۔ دونوں بدیسی تحائف ہیں ورنہ ہمارے ہاں تو کولے یا چائے نہیں، دودھ، لسی، کانجی، ستو شربت وغیرہ سے مہمانوں کی چور تواضع کی جاتی تھی اور وہ بھی اکثر موسموں کی مناسبت سے۔ چائے بھی کولے کی طرح جمعہ جمعہ آٹھ دن پرانی بدعت ہے۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے چائے شہر شہر مفت تقسیم کرکے عوام کو اس مشروب کا عادی بنایا گیا اور بدیسی کمپنیوں نے اس کارخیر کےلئے جو پہلا ’’سلوگن‘‘ بکثرت اک عرصہ تک استعمال کیا، اس کا بھی جواب نہیں اوریہ سلوگن تھا۔’’گرمیوں میں ٹھنڈا کرتی ہے‘‘اور پھر یہ ’’ٹھنڈ‘‘پورے برصغیر میں پھیلتی چلی گئی۔ آج صرف ہم پاکستانی ہی چائے کی شکل میں اربوں روپے کا زرمبادلہ سُڑک جاتے ہیں۔ بات کولے یا چائے کے درمیان میچ کی نہیں اس غلط بیانی کی ہے کہ چائے کا تعلق مقامی تہذیب و ثقافت سے ہے۔ یہ نئی نسل کو مس لیڈ کرنے کے مترادف ہے لیکن سب چلتا ہے۔اک اور کمرشل کاتعلق کسی انرجی ڈرنک سے ہے۔

اس اشتہار کا ’’ہیرو‘‘دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ایک کو ’’مولاجٹ‘‘ اسٹائل میں فتح کرنے کے بعد وہاں کھڑا ہو کر اس انرجی ڈرنک کی بوتل نکال کر غٹاغٹ پی جاتا ہے تو شاید اسے دیکھ کر پروفیشنل کوہ پیمائوںکا بلڈپریشر خطرناک حدود کوچھونے لگتا ہو۔اک اور شہکار میں ننھے منے معصوم بچے کو لاڈ سے ہوامیں اچھالتے باپ پر بھی غصہ آتا ہے جو نہیں جانتا کہ طبی لحاظ سے یہ خاصی غیرذمہ دارانہ حرکت ہے۔’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘ دیکھ سن کر فیض صاحب یاد آتے ہیں جنہو ںنے ’’یہ داغ داغ اجالا‘‘ کا رونا روتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ….. ’’ہر داغ ہے اس دل پہ بجز داغِ ندامت‘‘ کیا کرپشن اور نااہلی کے داغ بھی اچھے ہوتے ہیں؟ کیا بدنامی کا داغ بھی قابل فخر اور اچھا ہوتا ہے؟ ہےتو مبارک ہو۔ایک اور تھا جس میں بعدازاں ترمیم کردی گئی جس پر ٹیم قابل ستائش ہے اور یہ تھا ’’صبح سے رات تک چمکو‘‘رنگ گورا کرنے والی کریمیں دیکھ کر تولگتا ہے قوم کو اور کوئی کام ہی نہیں اور اگر ایک ٹوتھ پیسٹ ’’ٹھنڈے گرم سےفوری نجات‘‘دیتی ہےتو سوائے اس کے کیا کہ مسوڑھے سُن کردیتی ہے۔’’لمبے بال اور پنک لہنگے‘‘ والی کی ’’وِگ‘‘ چوہدری نثار کی وِگ کی طرح صاف پکڑی جاتی ہے۔عامل بابوں اور بنگالی جادوگروں کے فحش، گمراہ کن، غلیظ اور جہالت میں لتھڑے اشتہاروں کو تو چھوڑیں….. ہمارے توبعض ’’ڈیسنٹ‘‘ اشتہاروں کا ہی جواب نہیں لیکن جس معاشرہ میں PIAکا جہازغائب ہو جائے، وزیر خزانہ مفرور ہو….. وہاں کیا نہیں ہوسکتا، سب ممکن ہے، سب چلتا ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے