مردِ میدان‘حفاظتی حصار میں

ختم نبوتﷺ کے معاملے میں بھٹو صاحب نے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں اور منتخب اراکین کے ساتھ متعدد مذاکرات کئے۔ ایک ایک لفظ ہی نہیں بلکہ زِیر زَبر پر بھی بحث ہوئی۔ پاکستان کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما کرام کے ساتھ کھلی بات چیت کی گئی۔ ہر مذاکراتی عمل کے ساتھ جو نکات طے ہوئے‘ ان پر اتفاق رائے ہو گیا تو پوری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں‘ چند لفظوں پر مبنی مجوزہ آئینی شق‘ ایوان کے سامنے رکھی گئی۔ علما کرام کی ایک بڑی تعداد بھی منتخب ایوان کا حصہ تھی۔ ان کی موجودگی میں اس آئینی شق کو اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔ مذکورہ شق آئین کا حصہ بن گئی۔ جب یہ عمل مکمل ہو گیا تو کسی کو اعتراض نہ رہا۔ نہ ہی اختلاف کی گنجائش باقی رہی۔ علما کرام اور تمام مسالک کے ماننے والوں نے‘ پرتپاک انداز میں اس آئینی ترمیم کا خیر مقدم کیا۔ یہ 1974ء کی بات ہے۔ آئین میں اس ترمیم کو 43 برس ہو چکے ہیں۔ ان 43 برسوں میں ختم نبوتﷺ کے سوال پر کسی طرف سے نہ کوئی اعتراض آیا اور نہ کسی نے اختلاف کا اظہار کیا۔ آئین ایک مستقل اور بنیادی دستاویز ہوتی ہے۔ دنیا میں ایسے آئین بہت کم ہیں‘ جن میں طویل عرصے کے دوران‘ اتفاق رائے رہا ہو۔

ایک آئینی ترمیم‘ چند روز قبل مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کی گئی۔ اس ترمیم پر مذہبی جماعتوں کا شدید ردّعمل سامنے آیا۔ علما کرام‘ فیض آباد میں مستقل دھرنا دے کر بیٹھ گئے‘ راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہری گھروں میں محصور ہو گئے۔ نظام زندگی بری طرح مفلوج ہو گیا۔ چیف آف آرمی سٹاف‘ جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیلیں کی گئیں کہ وہ فوری طور پر مداخلت کریں‘ ورنہ پاکستان میںکتنا انسانی خون بہتا؟ اور کتنے شہر اور کارخانے جل جاتے؟ وہ تو فوج تھی جس نے مطالبہ سنتے ہی فوراً اقدام کیا۔ فوج کی اعلیٰ کمان نے تھوڑے سے وقت میں قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا اور ایک مرتبہ پھر ثابت ہوا کہ عوام‘ اپنی فوج سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر کوئی تشدد یا لاقانونیت نہیں کرے گا۔ جیسے ہی یہ خبر نشر ہوئی۔ تمام پرجوش اور تشدد پر آمادہ نوجوان‘ پر امن ہو گئے۔کسی راہ گیر کو نہیں روکا گیا۔ موٹر سائیکل کیمپوں کے بیچ میں سے گزر رہے تھے۔ انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ ہر طرف لبیک یا رسول اللہﷺ کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ اتنا ضرور ہوا کہ پر جوش نوجوانوں نے (ن) لیگی عہدیداروں اور منتخب اراکین کے گھروں پر حملے شروع کر دئیے تھے۔ یہاں تک کہ اپنے پسندیدہ رکن قومی اسمبلی‘ چودھری نثار علی خان کے گھر پر مشتعل افراد پہنچ گئے‘ جس سے دونوں فریق یعنی چودھری صاحب کی قیام گاہ کے محافظین اور مشتعل افراد کا آمنا سامنا ہو گیا‘ لیکن یہ خبر غلط نکلی۔ ان کی قیام گاہ پر خشت زنی ضرور ہوئی تھی۔ چودھری صاحب نے فون پر بتایا کہ میرے گھر کے اندر کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچا۔ حملے کی خبریں خواہ مخواہ اڑائی جا رہی ہیں۔ چودھری صاحب اپنے علاقے کی ہر دلعزیز اور پسندیدہ شخصیت ہیں۔ سیاسی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے گھر پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔ البتہ ہر جگہ کچھ پرجوش لوگ ہوتے ہیں جو فیض آباد کے اجتماع سے پتھر برسانے سے رہ گئے‘ وہ گھر سے دور کھڑے‘ پتھر پھینک کر واپس چلے گئے۔

سابق وزیر قانون‘ زاہد حامد جو بلحاظ عہدہ‘ نئی آئینی ترمیم‘ شامل کرنے پر مامور تھے‘ کی بدقسمتی کہ کمیٹی نے جو متن‘ اتفاق رائے سے منظور کیا تھا، ایوان میں پڑھتے وقت ان کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ آئینی شق میں ردّ و بدل کر کے‘ جس نازک مسئلے کو چھیڑا گیا تھا‘ اس کے ذمہ دار غالباً وہ خود ہیں۔ ایوان کے اندر سب سے پہلے شیخ رشید نے آواز اٹھائی لیکن اس وقت بھی بھرے ایوان میںچالاکی سے بڑھائے گئے چند الفاظ کا عام ممبران بھی اندازہ نہ کر سکے۔ ایوان کا اجلاس ختم ہوا۔ میڈیا نے واویلا مچایا۔ دوسری طرف علما کرام مشتعل ہو گئے۔ انہیں بھی شروع میں پتا نہ چلا کہ نئی آئینی ترمیم میں کیسی چنگاریاں رکھ دی گئی ہیں؟ اچانک ہی شعلے بھڑکنے لگے اور یہ شعلے‘ توقع سے بھی زیادہ شدت سے بھڑک اٹھے۔ وزیر داخلہ ہونے کی حیثیت سے احسن اقبال‘ بڑے ٹھاٹ باٹ کے ساتھ فیض آباد کے دھرنے میں آئے۔ مظاہرین سے مکالمہ کرتے ہوئے انہوں نے اکڑ کر کہا ”آپ اتنے بھی طاقتور نہیں کہ مجھ پر دبائو ڈال سکیں۔ میں صرف فیض آباد کا وزیر داخلہ نہیں‘ پورے پاکستان کا وزیر داخلہ ہوں‘‘۔ ایک زمانے میں پنجاب کے ایک وزیر نے بھی کہا تھا ”میں مشرق و مغرب کا بادشاہ ہوں‘‘۔ میرا خیال ہے کہ احسن اقبال ان مذاکرات سے بے خبر تھے‘ جو در پردہ جاری رہے۔

آگ ابھی بجھی نہیں۔ شعلے ابھی دبے نہیں۔ اپنے گھر کو تین ہزار پولیس اہلکاروں اور چاروں طرف‘ کنٹینرزکے گھیرے میں‘ بلٹ پروف چھت اور دیواروں کی پناہ میں بیٹھے ہوئے‘ ہمارے حکمران خود کو محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ عدالتوں کی طرف سے لمحہ بہ لمحہ آنے والے ریمارکس‘ ان کی تسلیوں میں اضافہ کر رہے تھے۔ آج یا کل‘ یہ حکمران خاندان‘ قومی اداروں کو زیادہ تیز دھار والی دھمکیاں دے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے