نہ مغل اعظم نہ گاڈ فادر

’’نہ مغل اعظم نہ گاڈ فادر‘‘نواز شریف جیسے’’سیاسی فُلوک‘‘کے لئے مسلسل ’’مغل اعظم‘‘ اور گاڈ فادر‘‘ جیسے القابات استعمال ہورہے ہیں جو مجھے کسی طور پر ہضم نہیں ہورہے۔ میں روز اول سے اس پر کڑھ رہا تھا کیونکہ ایک اوسط سے بھی کم تر درجہ کے آدمی کے لئے یہ القابات، اعزازت سے کم نہیں۔کہاں مہابلی مغل اعظم جلال الدین محمد اکبر ……. کہاں نواز شریفکہاں گاڈ فادر…….کہاں نواز شریفظہیر الدین بابر کا پوتا، نصیرالدین ہمایوں کا بیٹا جلال الدین محمد اکبر تاریخ کا غیر معمولی کردار ہے، جسے اس کے چور چمچوں نے نہیں، تاریخ نے’’مغل اعظم‘‘ قرار دیا۔ ان پڑھ ہونے کے باوجود وہ ایک پولیٹیکل اور ملٹری جینئس ثابت ہوا۔ وہ’’جگتیں‘‘ نہیں علمی مباحثے سنتا تھا۔ بدترین اور نامساعد ترین حالات میں بہت ہی کم عمر اکبر نے جس جرأت اور حکمت کے ساتھ اپنے بپھرے ہوئے بزرگ و محسن بیرم خان کو برطرف کرکے خود حکومت سنبھالی وہ غیر معمولی فیصلہ تھا۔ وہ تو وہ اس کے تو نورتن ہی مان نہیں جن میں نہ کوئی ڈار تھا نہ خواجے نہ طلال نہ نہال نہ احسن اقبال۔ نورتن تھے حضور !اور رتن’’موتی‘‘ کو کہتے ہیں سو خدا کا خوف کریں کس نہر پاناما کو کس سمندر کے ساتھ بریکٹ کیا جارہا ہے۔ کابل تا بنگال، گجرات تا پانی پت یہی وہ نابغہ روزگار تھا جس نے وسیع و عریض بکھرے برصغیر کو یکجا کیا، استحکام دیا اور بہت سے ناممکن…….ممکن کر دکھائے۔ یہ تو موازنہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی حسینہ عالم کو ڈائن کے ساتھ، سیمسن اور رستم کو کسی معذور کے ساتھ گڈمڈ کرکے کنفیوژن پھیلانا شروع کردے۔ مقصد”Akbar the Great”کا قصیدہ لکھنا نہیں کہ قصیدہ تو میرے قلم نے حاضر سروس حکمرانوں کا کبھی نہ لکھا۔ میں تو صرف ’’انصاف‘‘ کا طلبگار ہوں مغل اعظم کے لئے۔باقی رہ گیا’’گاڈ فادر‘‘ تو اس کو سمجھنے کے لئے صرف ایک مقبول ناول پڑھ لینا ہی کافی نہیں۔ انسانوں کی طرح الفاظ اور اصطلاحات کا بھی ایک شجرۂ نسب ہوتا ہے، ان کی بھی ایک تاریخ اور جڑیں ہوتی ہیں جن کا کھوج لگائے بغیر پوری بات پلے نہیں پڑتی۔’’گاڈ فادر‘‘ کی اصطلاح جہاں سے آئی وہاں یہ عزت و فخر کا نشان ہے۔ سیسلین کلچر میں’’گاڈ فادر‘‘ عزت کا مقام، احترام کی علامت اور فخریہ منصبہے جس کو تھرڈParentکی سی حیثیت حاصل ہے یعنی ماں باپ کے بعد ماں یا باپ جیسا جو اپنے زیر اثر لوگوں اور علاقوں کا ایک باپ کی طرح خیال رکھتا ہے اور اس کے لئے تین لفظ استعمال ہوتے ہیں۔AdvisorMentorHead of familyجیسے میں نے پچھلے دنوں اپنے کسی کالم میں اشارہ دیتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ہمارے ہاں اسے’’مائی باپ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی جو لوگوں کی جیبیں نہیں کاٹتا، ان کے پیٹ بھرتا ہے۔ ان کی عزت نفس سے نہیں کھیلتا، ان کی عزتوں کا محافظ ہوتا ہے۔ ان کی رہنمائی و سرپرستی کرتا ہے۔ اس Definationپر غور تو کریں،’’گاڈ فادر‘‘ دراصل کہتے کسےہیں۔”A man who is influential or pioneer in a movement/ organization”کاش!نواز شریف گاڈ فادر یا اس طرح کا کوئی مافیا چیف ہی ہوتا لیکن اس شخص کو تو اپنے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے علاوہ اور کچھ دکھائی ہی نہ دیا۔ پاناموں اور پارک لینوں میں گم ہو کر یہ اپنی’’پاورٹی لائن‘‘ بھول کر چالیس چالیس کروڑ کی گھڑیاں پہن کر کہنے لگا۔’’اگر میرے اثاثے میری آمدنی سے زیادہ ہیں تو تمہیں کیا؟‘‘نہ یہ مغل اعظم ہے نہ گاڈ فادر…….کاش!میرا کوئی ایک سابق وزیر اعظم بھی صرف ’’سلطانہ ڈاکو‘‘ یا’’رابن ہڈ‘‘ ہی ہوتا جن کے بارے مشہور ہے کہ امیروں کو لوٹ کر غریبوں میں بانٹتے تھے لیکن یہ تو وہ ہیںجو غریبوں کو لوٹ لوٹ کر آپس میں بانٹتے ہیں اور پھر یہ’’مال غنیمت‘‘ بھی بیرون ملک پہنچا دیتے ہیں۔ انہیں اپنے زیر اثر لوگوں (ووٹروں) اور زیر اثر علاقوں(حلقہ ہائے انتخاب) پر تاتاریوں جتنا رحم بھی نہیں آتا۔ یہ’’سلطانے‘‘ نہیں ’’اقامے‘‘ ہیں لوگو!بچپن میں افسانوی بدمعاشوں کے بارے سنتے رہے کہ وہ بے حدلج پال ہوتے تھے۔ دھی ،بہن ، ماں کی عزتوں کے محافظ، چولہے بجھنے نہ دیتے، کمزوروں کی ڈھال بنتے، کسی کی مجال نہ تھی کہ ان کے’’زیر اثر‘‘ لوگوں اور علاقوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے…….لیکن پھر ’’تھڑئیے‘‘ اور ’’فٹ پاتھیئے‘‘،’’ مغل اعظم‘‘ اور’’گاڈ فادر‘‘ بنتے چلے گئے تو نتیجہ بلکہ نتیجے سامنے ہیں۔ کیا حال ہے ہمارے لوگوں اور اس ملک کا؟؟؟تادم تحریر فیس بک پر22لاکھ 63ہزار ایک سو باسٹھ فالوئورز ہیں، ٹوئیٹر اور دیرینہ قارئین علیحدہ ، ان سب سے دست بستہ اپیل ہے کہ کوئی میرے نواز شریف کو’’مغل اعظم‘‘ یا’’گاڈ فادر‘‘ کبھی نہ کہے کہ یہ شخص صرف تین بار کا وزیر اعظم ہے۔ صرف سابق نااہل وزیر اعظم۔پھر کوئی اور’’دھرنا‘‘ نہ آگیا تو سرجری کے لئے جارہا ہوں۔’’پھر ملیں گے اگر خدا لایا‘‘۔ ہوسکے تو ایک دعا عطا ہو ورنہ وقتی اور ابدی نیند میں فاصلہ ہی کتنا ہے، درمیان کوئی پاناما نہیں۔نوٹ:کچھ اور نہیں کرسکتے تو یہ جمہوریت سعودی عرب کی بادشاہت کو ہی کاپی کرلے کہ اگر جینوئن شہزادوں سے اربوں ڈالرز کی وصولیاں ہوسکتی ہیں تو دو نمبر شہزادوں سے کیوں نہیں؟یہ الٹے ہوں گے تو ملک سیدھا ہوگا اور ہاں…….وہاں نوبت شہزادیوں تک بھی جاپہنچی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے