ایٹمی اندیشے

مقبوضہ کشمیر کے لیڈر‘ شیخ عبداللہ نے حال میں ایک انتباہ کیا ہے” موجودہ صورت حال میں پاکستان اور بھارت کو کشمیر کے سوال پر‘ اپنے طرز عمل میں اعتدال ا ختیار کرنا ہو گا۔ دونوں ملک یعنی پاکستان اور بھارت‘ماضی کی طرح روایتی دفاعی قوتیں نہیں رہیں۔دونوں ممالک ایٹمی اسلحہ کے ذخیرے جمع کر چکے ہیں ۔ اگر کشیدگی آخری حدوں کو چھو گئی اور یہ خطہ‘ ایٹمی اسلحہ کے استعمال کی طرف مائل ہو گیا تو پھر نا قابل تصور تباہی کا خطرہ پیدا ہو جائے گا‘‘۔یہ اندیشہ صرف شیخ عبداللہ کا نہیں۔ پوری دنیا اس مسئلے پر گاہے گاہے اپنے تحفظات کااظہار کرتی رہتی ہے ۔ دنیا کی دوسری طاقتیں بھی کسی نہ کسی انداز میں خطرات کی لپیٹ میں آجائیں گی۔ جب خطرے پر سوچنا شروع کر دیا جائے تو پھر کوئی نہ کوئی واقعہ‘ تباہ کن ہتھیاروں کے استعمال کی صورت میں رونما ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ بھارت‘ پاکستان اور شمالی کوریا کی طرف سے ہے۔ شمالی کوریا اور پاکستان‘ عدم استحکام کے خوف کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے اندر ایٹمی خدشات پیدا ہو گئے تو نا قابل بیان نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
جب سے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ ‘اقتدار میں آئے ہیں‘ انتہائی خطرناک اشارے دیتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ پاکستان کو دھمکی دیتے ہیں۔ کبھی شمالی کوریا کو غیر مستحکم کرنے اور کبھی ایران کو سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔امریکہ نے سب سے پہلے ایٹمی قوت حاصل کی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتامی لمحات میں ‘اس نے جاپان پر دو ایٹمی بم گرا کر اپنا خوف‘ دنیا پر طاری کر دیا تھا ۔ جنگ عظیم کے بعد‘ امریکی قیادت نے ایٹمی تباہی کے نتائج دیکھے تو اس کی خارجہ پالیسی میں احتیاط اورتوازن پیدا ہوا‘ جس سے دنیا کو امن کاایک طویل وقفہ نصیب ہو گیا۔ لیکن موجودہ امریکی صدر‘ انتہا پسندی کے نئے رحجانات کو جنم دے رہے ہیں۔شمالی کوریا‘ دنیا کی کسی ایٹمی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔لیکن اس کے سربراہ‘ کم جونگ نے براہ راست امریکہ کو للکار کے‘ عجیب و غریب صورت حال سے دوچار کر دیاہے۔اس وقت دنیا کی دو ایٹمی طاقتیں‘ ایک دوسرے سے ٹکر لینے کا رجحان رکھتی ہیں۔
شمالی کوریا ایک نادان بچے کی طرح‘ اپنے ایٹمی اسلحہ سے‘ امریکہ کو دھمکانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ شمالی کوریا کی طاقت اور اس کا سائز اتنا بڑا نہیں کہ امریکی طاقت کو چھیڑنے کا حوصلہ کر سکے۔ اس کے لیڈر‘ امریکی قیادت کومحض دھمکیاں دے سکتے ہیں ‘ عملی زور آزمائی کرنا‘ اس کا بس نہیں۔ اندیشہ یہ ہے کہ شمالی کوریا کی طرف سے مسلسل د ھمکیا ں ‘ مشتعل امریکی صدر کو کسی بھی لمحے‘ اشتعال میں لا سکتی ہیں اور پھر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ نیو کلیئر اسلحہ کے بٹن کہاں کہاں دبنے لگیںگے؟بہت عرصہ ہوا کہ دنیا میں عالمی طاقتوں نے بامعنی اور سنجیدہ مذاکرات نہیں کئے۔ کل ہی ایک دلچسپ واقعہ ہوا کہ طویل مدت سے ایک دوسرے کے گہرے اتحادی یعنی برطانیہ اور امریکہ کے درمیان بھی تلخی کی ایک لہر ابھری۔ بات معمولی تھی لیکن تلخی اور تندی اس سے بہت بڑی۔
برطانیہ میں مسلمانوں اور برطانوی شہریوں کے مابین‘ چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں لیکن برطانیہ کی تاریخی سرد مزاجی اور قوت برداشت‘ ہمیشہ معمولی باتوں کو نظر انداز کر دیتی ہے جبکہ امریکی صدر‘ ٹرمپ ذرا سی بات پر مشتعل ہو جاتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ دوست ممالک بھی ‘ان کی ہنگامی اشتعال انگیزی کو برداشت کریں۔انہوںنے برطانوی مسلمانوں اور مقامی آبادی کے مابین روایتی تلخی اور تندی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جو برطانوی قیادت کو ناگوار گزرا۔ ادھر امریکی صدر ٹرمپ‘ برطانیہ کے دورے پر بھی آرہے ہیں۔ انگریز کے دیرینہ تحمل اور سردمزاجی فوری ا شتعال میں نہیں آتی۔صدر ٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف‘ تندو تیز فرمودات کو دیکھ کر برطانوی پارلیمنٹ کے معزز اراکین نے بھی ردعمل کا اظہارکیا اور ان کے بیانات جاری ہونے لگے کہ ہماری آبادی کے مقامی معاملات پر اظہار خیال کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے ملکوں کے لیڈر ‘اندرونی اختلافات پر براہ راست اظہار رائے کرنے لگیں۔ برطانیہ میں رہنے والے ہر قومیت کے لوگ ‘ہمارے شہری ہیں اور باہمی معاملات پر کسی دوسرے کو رائے زنی کرنے کا حق حاصل نہیں۔ امریکی صدر کو ہمارا یہ پیغام پہنچا دینا چاہئے کہ ہم اپنے ملکی معاملات میں مداخلت کرنے والے کسی بیرونی مہمان کا خیر مقدم نہیں کر سکیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے