انتخابات ’’رومانوی‘‘ ہوئے تو

سرسید احمد خان ’’قومی اخلاق‘‘ کے بہت قائل تھے ۔ قومی اخلاق انگریزی کے لفظ ETHOS کا ترجمہ ہے اس کا مطلب کسی قوم کا مخصوص مزاج بھی ہوتا ہے۔ قومی مزاج صدیوں میں بنتا ہےاور یہ سیاست، معاشرت اور ثقافت میں رچا اور بسا ہوا ہوتا ہے۔ ہر قوم اپنے قومی مزاج سے پہچانی جاتی ہے اور ہر بڑے واقعے پر اس کا ردعمل بھی اپنے ETHOS کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ معاشروں کی رومانوی داستانیں اور رومانوی کردار بھی اسی قومی مزاج کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آیئے جائزہ لیں کہ آئندہ انتخابات میں پنجاب کی لوک ہیروئن ہیر کسے ووٹ دے گی؟ اور یہ بھی دیکھیں کہ سندھی ماروی آف ملیر کا آئندہ انتخابات میں سیاسی رجحان کیا ہوگا؟ کیا اس کا پیپلز پارٹی سے سحر برقرار رہے گا یا اس میں دراڑیں پڑ جائیں گی؟ یہ اندازہ بھی لگائیں کہ پشتون فوک ہیروئن ملالہ آف ماوندہ آئندہ انتخابات میں کیا سوچ رہی ہوگی اور اس کا جھکائو کس طرف ہوگا؟ یہ تخمینہ بھی لگائیں کہ بلوچی پنّوں روایتی طریقے سے ہی سسی کے لئے بھنبھور کی طرف سفر کرے گا یا پھر اب شاہ مرید اور ہانی کے نئے رومانوی کردار نئی سمت طے کریں گے؟ رومانوی کرداروں کا صحیح اتھاس معلوم ہوجائے تو اگلے انتخابات کے نتائج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا۔
وارث شاہ کی ہیر رانجھا پنجاب کے قومی مزاج یا ETHOS کی مکمل نمائندگی کرتی ہے اور اسی ETHOS کو مدنظر رکھتے ہوئے ہیر کا رومانوی کردار پنجاب کے دل اور جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہیر معاشرے کی باغی ہے۔ ملّا، قاضی اور حاکم کے خلاف ہے، روایت شکن ہے جبکہ عام پنجابی کے مزاج میں بغاوت نہیں تابع فرمانی ہے۔ ظلم کے سامنے کھڑا ہونا اس کا مزاج نہیں بلکہ وہ تو وقت گزارنے کے لئے جھک بھی جاتا ہے۔ اس تضاد کے حل کے لئے دو سوال ہی کافی ہیں۔ باغی ہیر اور غیرت مند لنگڑے ولن کیدو کے درمیان انتخاب ہو تو پنجاب میں کون جیتے گا؟ عاشق مزاج دھیدو رانجھے اور بزدل مگر ہیر کے قانونی خاوند سیدے کھیڑے میں ریفرنڈم کروا لیں۔ تمام تر لاقانونیت اور مجنونیت کے باوجود عوامی عدالت دھیدو رانجھے کے حق میں ہی فیصلہ کرے گی یعنی اگر پنجابی معاشرے کے اتھاس کو پرکھا جائے تو وہ دل سے مظلوم اور مجنون کا حامی ہے۔ بھٹو کو عدالت میں پھانسی ملنے کے باوجود پنجابی 30سال تک بھٹو کی محبت پالے رہے۔ 1970ء سے 1988ء تک ’’ہے جمالو‘‘ کرتی پیپلز پارٹی ہیر کے دل میں سمائی رہی اور دل سے مکمل نکلنے میں اسے مزید 20سال لگے پنجاب کے شہری بابو گزشتہ بیس سال سے نون کے گرویدہ رہے ہیں۔ پنجابی ہیر کو نون میں معلوم نہیں کیا پسند ہے کہ گیلپ کے حالیہ سروے کے مطابق نااہلی کے باوجود اسے پنجاب میں 53سے 58فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔ خادم اعلیٰ شہباز شریف بہت مطمئن ہیں کہ اگر الیکشن ہوا تو پی ٹی آئی سے پنجاب میں مقابلہ تو سخت ہوگا لیکن زیادہ نشستیں نون ہی لے جائے گی۔ دوسری طرف عمران خان کا خیال ہے کہ نہیں اس بار عوام اس کا ساتھ دے گی۔
اصل میں کیا ہوگا؟ دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومتی ڈرامہ کس کروٹ بیٹھے گا؟ انتخابات میں پنجابی اتھاس کے مطابق رانجھا کون ہوگا اور کھیڑے کون؟ ہیر کا کردار کسے ملے گا اور ملّا، قاضی اور حاکم کی تہمت کس پر لگے گی؟
صدیوں کی تاریخ کا سفر مدنظر رکھیں تو نون لیگ کی ہیر ابھی اور بدنام ہوگی فارورڈ بلاک بنے گا اور ووٹ بینک بھی کم ہوگا۔ اصل سوال یہ ہوگا کہ اگلے چند ماہ میں یہ فرق کتنا ہوگا؟بس اسی پر جیت یا ہار کا فیصلہ ہوگا۔
سندھی لوک کہانی ماروی آف ملیر کی مرکزی کردار سندھ کے قومی مزاج یاETHOS کی نمائندگی کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ سندھ کی ’’شہید رانی‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ماروی آف ملیر کا کردار بہت پسند تھا۔ محترمہ جب 50سال کی ہوئیں تو انہوں نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز پر ایک نظم ’’ماروی آف ملیر‘‘ (دی اسٹوری آف بے نظیر) لکھی۔ اس کالم نگار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 2003ء میں محترمہ نے سب سے پہلے یہ نظم دبئی میں اسے ہی سنائی تھی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کردار ماروی کو اپنی زمین سے بے پایاں محبت تھی اس نے ظلم کے خلاف جدوجہد کی اور بہادروں کی طرح اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کی۔ سندھی ماروی کو بھی بھٹو سے ایسا عشق ہوا کہ نہ جبر اور نہ لالچ، نہ دبائو اورنہ کوئی کمزوری اس تعلق کو توڑ سکی، 40سال سے یہ عشق بھٹو سے سفر کرتا ہوا شہید بے نظیر تک اور اب بلاول بھٹو تک پہنچ چکا ہے، دیہی سندھ میں اب بھی پیپلز پارٹی 44 سے 52فیصد تک مقبول جماعت ہے سو اگر کوئی حادثہ نہ ہوا تو ماروی اب بھی پیپلز پارٹی کو ہی ووٹ دے گی۔ تمام تر طعنوں، کرپشن کے الزامات اور ترقیاتی منصوبوں کے باوجود ماروی کی دو بھٹوز کے خون سے وفاداری متزلزل نہیں ہوئی۔شہری سندھ کی ماروی البتہ گومگو میں ہے فاروق ستار، لندن اور پاکستان میں کنفیوژن لکھ کر راستہ بنانا چاہتے تھے مگر مصطفےٰ کمال کھل کر لندن کے آمنے سامنے آچکے۔ دوسری طرف لندن والے عوامی حمایت کے باوجود مشکلات کا شکار ہیں۔ کنفیوژن جیت سکتا تھا اگر ماروی کو پتہ ہی نہ چلتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوچکا ہے لیکن وہ جانتے بوجھتے نہ تو کنفیوژن کی کشتی میں چھلانگ مارے گی اور نہ لندن کے کھلے باغیوں کا ساتھ دے گی۔ غرضیکہ شہری مینڈیٹ بکھرنے کا امکان زیادہ لگ رہا ہے۔
پختونخوا کی رومانوی ہیروئن ملالہ آف ماوندہ پشتون قومی مزاج کے مطابق خود تلوار سونت کر مقابلے میں اترتی ہیں۔ 27جولائی 1880ء کی دوسری اینگلو افغان جنگ میں ملالہ نے غازی ایوب خان کے ساتھ مل کر انگریزوں کو شکست دی تھی۔ عالمی شہرت یافتہ نوبل پرائز ونر ملالہ یوسفزئی کا نام بھی ملالہ آف ماوندہ کے نام پر ہی رکھا گیا ہے۔ پشتون ولی کے روایتی عناصر بہادری، بدلہ، میزبانی اور شکست خوردہ کے ساتھ مہربانی ہوا کرتے تھے۔ آزادی بہرحال پشتون ETHOS کا حصہ ہے اسی لئے ہر انتخابات میں پشتونوں کی اکثریت اپنی رائے بدل کر کبھی اے این پی، کبھی متحدہ مجلس عمل اور کبھی تحریک انصاف کو لے آتی ہے ملالہ آف ماوندہ 2018ء کے انتخابات میں 2013ء کی طرح دوبارہ تحریک انصاف ہی کو ووٹ دے گی یا ماضی کی آزاد خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ نیا کرے گی؟ تازہ سروے کے مطابق خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی آج بھی نمبر ون ہے اور اسے 47سے 55 فیصد تک کی مقبولیت حاصل ہے گویا ملالہ آف ماوندہ کا دل ابھی پی ٹی آئی سے اچاٹ نہیں ہوا اور اگر کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوتا تو نتائج ماضی جیسے ہی ہونگے۔
بلوچستان کا قومی مزاج یا ETHOS اس کی دو رومانوی داستانوں سسی پنوں اور ہانی و شاہ مرید میں بٹا ہوا ہے سسی بڑی بہادر اور وفا شعار تھی خود پنوں کی تلاش میں اکیلی ریگستانوں میں نکل کھڑی ہوئی۔ رائے بہادر لالہ ہتورام کی تاریخ بلوچستان پڑھیں یا پیکولین کا شاہ محمد مری کا ترجمہ ’’بلوچ‘‘ دیکھیں یا میر اسرار اللہ زہری کی تاریخ بلوچ پر نظر ڈالیں، بلوچ ETHOS میں ناراضی اور غصہ ہے مگر ان کی انتخابی سیاست بٹی ہوئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آئندہ بھی سسی اور ہانی میں رائے منقسم رہے گی۔ بلوچستان کے نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہوں گے۔ ہیر سیال ہو یا ملالہ، ماروی ہو یا سسی۔ ETHOS یا قومی مزاج کا دوسرا نام ہیں اور انہی کی سوچ میں تبدیلی کسی کو جتائے یا ہرائے گی…..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے