سبق آموز حکایت رومیؒ

(گزشتہ سے پیوستہ)
جب پیغمبر ﷺ نے فتس مند گروہ کے لئے ہذیل قبیلے کا سردار بنایا تو ایک بے ہودہ حسد کی وجہ سے یہ برداشت نہ کرسکا۔ اور اس نے اعتراضاً اعلان کیا کہ ہم نہیں مانتے۔
(وائے افسوس) لوگوں کو دیکھو کہ کس قدر اندھیرے میں ہیں۔ اور فانی دولت و اسباب پر کس قدر مرمٹنے والے ہیں۔ تکبر کی وجہ سے یہ سب آپس میں جھگڑے میں ہیں۔ یہ گویا روح کے اعتبار سے مردہ ہیں اور جلانے والی (دوزخ) کے بارے میں زندہ ہیں۔ یہ تعجب ہے کہ قید خانہ (جسم و نفس) کی کنجی (یاد حق) اس کے ہاتھ میں ہے، لیکن یہ روح قید(جسم) میں بند ہے۔ ایسے ہی وہ جوان سر سے پائوں تک گندگی (خباثت نفس) میں غرق ہے حالانکہ جاری نہر (نور محمدی) اس کے دامن سے ٹکرا رہی ہے۔ حالانکہ وہ آرام کی جگہ اور (نبی ﷺکے) سہارے کے پہلو میں ہے لیکن ہمیشہ ہر کروٹ پر بے قرار ہے۔ حق تعالیٰ کا نور موجود ہے اور طالب کی (فطری روح کی بے قراری، اس کی) جستجو اس کی گواہ ہے۔ کیونکہ دل فضول اپنی جائے پناہ (قرب محبوب) نہیں ڈھونڈا کرتا۔ اگر دنیا کے قید خانے سے نجات کا راستہ نہ ہوتا تو نہ کسی کو دنیا سے وحشت (بیزاری) ہوتی اور نہ دل (بیقراری سے) اس سے چھٹکارا چاہتا۔ (لہٰذا) یہ (فطری) بے زاری تم کو ایک سپاہی کی طرح کھینچی ہے کہ اے گمراہ چل (عالم بالا کا) صحیح راستہ تلاش کرلے۔ ایسا (نکلنے کا) راستہ موجود ہے اور چھپے ہوئے مقام (روزن قلب) میں ہے۔ اس کا ملنا بھی (مجنونانہ) بے ترتیب مگر دھن والی کوشش (شدت طلب) پر منحصر ہے۔
یہ تفرقہ (یعنی کثرت وجود) فطری مخفی طور پر وحدت کا متلاشی ہے۔ تم اس طالب (کائنات) میں مطلوب (حق) کا چہرہ دیکھ لو۔ جیسے باغ کے مردہ بیج جب جڑ سے اگ پڑیں تو (ان کے ذریعے) اس زندگی بخشنے والے (رب) کو سمجھ لو۔ سمجھو کہ اگر کوئی خوش خبری دینے والا (مرد حق) نہ ہوتا تو (اس دنیا کے) قیدیوں کی نگاہ ہر وقت نجات کے دروازے پر کیوں ہوتی۔ یا اگر آب رحمت ہوتا تو لاکھوں گناہ میں آلود آب رحمت کی تلاش کب کررہے ہوتے۔ یا یہ سوچو کہ اس زمین پر تمہارے پہلو کو آرام کیوں نہیں ہے۔ (ہر آلام روزگار ہیں) وجہ یہ ہے کہ (روح کو معلوم ہے کہ) آخرت کے گھر میں (اس کا) لحاف اور بستر موجود ہے۔ (وہ جسم کو بے قرار کئے ہوئے ہے) پس (جان لوکہ) کوئی بھی اپنی اصل قرار گاہ کا خیال کئے بغیر بے قرار نہیں ہوا کرتا۔ اسی طرح طلب میں اعضا شکنی اسی وقت ہوتی ہے جب خمار کو توڑنے والی چیز شراب کی امید ہوتی ہے۔
(وائے افسوس) معترض نے کہا، نہیں، نہیں یا رسول اللہ فوج کا سردار کسی پرانے بزرگ کو ہی بنائیے۔ یا رسول اللہ، نو عمر اگر شیر کا بچہ بھی ہو تو بھی سپہ سالار لشکر بننے کے لئے بزرگ ہی ہونا چاہئے۔ (پھر طعنہ دینے لگا کہ) آپ ہی نے فرمایا ہے اور آپ کی حدیث گواہ ہے کہ پیشوا بزرگ ہونا چاہئے، بزرگ ہونا چاہئے (پھر خود راہ دکھانے لگا کہ) اے رسول اللہ اس لشکر کو دیکھئے اس میں بہت سے بزرگ ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر ہیں۔ اس درخت کو اس کے زرد پتوں سے نہ دیکھئے۔ بلکہ اس کے پختہ سیب چن لیجئے۔ اس کے زرد پتے بھی بیکار کب ہیں۔ یہ تو اس کی پختگی اور کمال کی علامت ہیں۔ داڑھی کے زرد پتے اور وہ سفید بال عقل کے پختہ ہونے کی بشارت دیتے ہیں۔ اور یہ نئے اُگے ہوئے سبز پتے تو اس بات کی نشانی ہوا کرتے ہیں کہ پھل کچا ہے۔ (عقل خام ہے) ان بزرگوں کی نوجوانی کی سازو سامانی ان کے عارف (باللہ) ہونے کی نشانی ہے۔ جیسے سونے کی زردی صراف کی سرخروئی کا باعث ہوتی ہے۔ ان کے مقابلے میں وہ شخص جو نوجوان ہے، پھول کے سے رخسار والا اور نئے نئے داڑھی کے بال والا ہے، وہ اس بات کی خبر دیتا ہے کہ مکتب میں نیا داخل ہوا ہے اس کی تحریر کے حروف ٹیڑھے ترچھے ہوں گے۔ اس کا جسم اگرچہ دوڑ رہا ہوگا لیکن وہ عقل کا معذور ہے۔ اور بوڑھے کے پائوں اگرچہ تیز چلنے سے عاجز ہیں لیکن اسے عقل کے دو پر حاصل ہوگئے ہیں۔ وہ بلندی پر اڑتا ہے (پھر دلیل بھی دے دی کہ) اگر آپ مثال چاہتے ہیں تو جعفرؓ کو دیکھ لیں۔ حق تعالیٰ نے انہیں ہاتھ پائوں کی بجائے پر دے دیئے ہیں۔
(وائے ہلاکت) اے مخاطب! اگر تم کلام (فرمان نبی ﷺ)کے راز سمجھ سکو تو میں جعفری سونے کی سی (کھری) بات کروں سونے کی بات چھوڑو۔ کیونکہ (اس معترض کی دنیوی باتوں کے انقباض) سے اسرار چھپنے لگے ہیں۔ جس سے میرا یہ دل پارے کی طرح (لرزاں) بے قرار ہوگیا ہے۔ (جاہل کی بات سے) اب میرے اندر سے سو خاموشیاں میرے (معرفت سے بھرے) خوشبودار ہونٹوں پر ہاتھ رکھتی ہیں۔ یعنی کہ بس کروں۔ خاموشی (یعنی رموز غیب) سمندر کی طرح ہے اور گفتگو اس میں ایک نہر کی طرح ہے۔ جب تجھے سمندر (معرفت) تلاش کررہا ہے تو نہر (معمولی گفتگو) کی تلاش نہ کر۔ دریا کے اشاروں سے منہ نہ موڑ۔ بات کو ختم کردے اور خدا بہتر جانتا ہے۔ (کہ فیضان باطنی خاموشی کے ذریعہ جاری رہنا کتنی رحمت ہے)۔
اسی طرح وہ بے ادب پیغمبر ﷺ کے سامنے ٹھنڈے ہونٹوں سے بات کرتا رہا۔ باتیں اس کے ہاتھ آتی رہیں لیکن وہ اس سے بے خبر تھا کہ مشاہدہ (یعنی دیکھنا) کے سامنے خبر (صرف معلومات) بیکار ہوتی ہے۔ یہ خبریں تو مشاہدوں کے بعد (یعنی ان سے کم) شمار ہوتی ہیں پھر خبروں کا تعلق تو جو شخص کہ موجود ہو اس کے لئے نہیں ہے، بلکہ اس سے ہے جو غائب ہو (اس جگہ موجود نہ ہو) تبھی تو جو شخص مشاہدہ کررہا ہو اس کے لئےیہ خبریں بیکار ہوگئیں۔ یعنی جب تم معشوق کے ہم نشین بن گئے تو اس کے بعدخوشامدوں نیاز مندیوں کو دور کردو۔ اس طرح جو شخص کہ بچپن (طالب) کے زمانہ سے نکل کر جوان (سالک) ہوگیا تو اس کے لئے خط اور دلالہ (وسائل) بے ضرورت بن گئے۔ اب جو (خود کامل ہوکر) وہ خط پڑھتا ہے (یعنی ابتدائی ذرائع اختیار کرتا ہے) تو صرف اس لئے کہ دوسروں کو سکھائے۔ (اسی طرح جب وہ) بات کرتا ہے تو دوسروں کو سمجھانے کے لئے۔ وگرنہ مشاہدہ کرنے والوں کو خبر سنانا (ان سے بات کرنا) غلطی بھی ہے اورجہالت اور کمی کی دلیل بھی۔ تو گویا صاحب بصیرت کے آگے تمہارا چپ رہنا مفیدہے۔اسی لئے ہمیں ’’انصتوا‘‘ (خاموش رہو) کا حکم ہوا ہے۔ پھر اگر وہ حکم دیں کہ بولو تب تمہیں چاہئے کہ اچھی بات کرو۔ لیکن بات کو (نصیحت کا اندازہ نہ دو) طول نہ دو۔ اور اگر وہ حکم دیں کہ تفصیل سے بیان کرو تو حکم مان لو اور (مثنوی جیسی) اسی طرح عمدہ بات کرو۔اسی قسم کا میرا اور ضیاء الحق حسام الدین کا اس مناسب کلام (مثنوی) کے سلسلے میں معاملہ ہے۔ جب میں بیان کو مختصر کرتا ہوں تو وہ سینکڑوں طرح سے بولنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اے حسام الدین آپ ذوالجلال کا نور ہیں۔ آپ جب کہ مشاہدےمیں ہیں تو پھر بات کی جستجو کیوں کرتے ہیں۔ یہ شاید محبوب کے لئےمرشد سے محبت کی وجہ سے ہے۔ (کہ دیکھنے کا اور باتیں سننے کا بھی شوق ہے) (جیسے مست چاہتا ہے کہ) مجھے شراب پلا اور مجھ سے بات بھی کر کہ، یہ ہے شراب پھر اس وقت جب کہ آپ کے منہ سے اس محبوب کا جام لگا ہے تو کان بھی کہتا ہے کہ کان کا حصہ کہاں ہے۔(بات سنائیں) اسے جواب ملتا ہے کہ تیرا حصہ گرمی عشق ہے یہ جو تجھ میں (خاموشی سے سننے کی) گرمی ہے، یہی تیرا حصہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میری حرص تو اس سے بھی زیادہ ہے (کلام سننے کی لذت چاہتا ہوں)۔
اس اعتراض کرنیوالے کو آنحضو ر ﷺ کا جواب دینا حضور ﷺ کا اس کو صرف اشارے سے روکنا اور یہ سمجھانا کہ واقف اسرار کے سامنے کتنا بولے۔ بات بنا کر دھوکہ دینے والا یہ جانتے ہوئے بھی کہ (مخاطب) عقل و دانش والے ہیں، دھوکہ دینا چاہتا ہے۔ اگر وہ صاحب فہم خاموش ہیں تو یہ ان کی چشم پوشی اور حلم ہے۔ وہ جان کر اپنے کو بے بہرہ بنا لیتے ہیں۔ مگر تمہیں تو دیکھنا چاہئے کہ کسے دھوکہ دینا چاہ رہے ہو۔ جن لوگوں کو ان کی بردباری کا کیف حاصل ہوا ہے وہ تو مست بے خود ان کے حسن (ذات) میں غرق ہوکر رہ جاتے ہیں۔
شیریں مزاج مصطفی ﷺکے حضور جب اس عرب نے حد سے زیادہ گفتگو کی تو آیت والنجم کے شاہ (برحق) اور آیت عبس (ناگواری مزاج) کے سلطان نے اپنا ہونٹ دبایا اور اس مرد بات کرنے والے سے کہا کہ بس کرو۔ آپ نے اس کو روکنے کے لئے منہ پر ہاتھ رکھ کر خاموش رہنے کا ارشاد کیا۔ (جس سے مقصد صاف ظاہر تھا) کہ واقف اسرار کے سامنے کتنا بولو گے۔
(اے بات بنا کر دھوکہ دینے والے)تو خشک گوبر کو ایک صاحب بصیرت کے سامنے لے جاتا ہے کہ اس کو مشک کے نافہ کی جگہ خرید لے۔ اے بد دماغ گندہ مغز! تو (یہ سمجھتے ہوئے کہ بدباطن کررہا ہے) مینگنی کو ناک کے نیچے رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ آخا آخا! (کتنی اچھی بات ہے) اے احمق بھینگے، تو آخا آخا کرتا ہے، تاکہ تیرا خراب مال (پسند ہو کر) چل نکلے۔ اے خشک دماغ، تو آخا آخا کرتا ہے تاکہ تو کم تر مینگنی کو (عمدہ مشک) ظاہر کر دے۔ تو آسمانوں کے گلشن کے چرنے والے پاک دماغ والے کو کب تک دھوکہ دے گا۔ اس کی بربادی نے اگرچہ اپنے آپ کو بھولا (ناواقف) بنا لیا ہے۔ مگر تجھے بھی تو اپنے آپ کو پہچاننا چاہئے (کہ کس کو دھوکہ دینا چاہتا ہے) اگر آج کی رات دیگ کا منہ کھلا رہ گیا ہے تو بلی کو بھی تو شرم کرنی چاہئے (کہ منہ نہ ڈالے) ۔اگر اس خوبیوں والے نے اپنے آپ کو (چشم پوشی کرکے) سویا ہوا بنا لیا ہے تو ہمیں تو معلوم ہے کہ وہ خوب بیدار ہے۔ تم تو اس کی پگڑی نہ اتارو، اے ٹیڑھے کور باطن شخص تو کب تک اپنے شیطانی منتر، مصطفی ﷺ کے روبرو پڑھے گا۔
(ترجمہ بشکریہ جناب ولی الدین صاحب)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے