50 سالہ پیپلز پارٹی اورجیالوں کا جشن

پچاسویں یوم تاسیس کے جلسے کے لئے اسلام آباد میں پیپلز پارٹی نے جو ماحول سازی کی تھی وہ مجھ جیسے غیر سیاسی بندے کو بھی پریڈ گراؤنڈ تک کھینچ لے گئی۔2007ء میں بے نظیر کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے کچھ غیر مقبول فیصلوں کے باعث سیاسی اجتماعات میں جانا کم کر دیا۔آخری بار 2011ء ملتان میں ایم کیوا یم کے ایک جلسے میں شرکت کی ۔ پریڈ گراؤنڈ جلسے میں جیالوں کا جوش و خروش دیدنی اور نظم و ضبط قابل تعریف تھا جو کہ عام طور پر سیاسی اجتماعات میں دیکھنے کو کم ملتا ہے۔ ارادہ تھا کہ تقریریں سننے کے بجائے جلسے کا ماحول دیکھ کر لوٹ جاوں مگر جلسہ گاہ میں محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ کسی روایتی سیاسی جماعت کا جلسہ ہے ۔ تین گھنٹوں پر محیط جلسہ جیالوں کے ہمراہ کھڑے کھڑے دیکھ لیا۔

یہ جلسہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کی نظریں اس جلسہ پر لگی تھیں ۔ 2007ء کے لیاقت باغ جلسے کے بعد راولپنڈی اسلام آباد بلکہ اس پورے خطے میں پیپلز پارٹی کا کوئی ایسا اجتماع نہیں ہواجس سے جماعت کی عوامی قوت کا حقیقی اندازہ ہو سکے۔ توقع تھی کہ اس جلسہ سے جہاں پی پی پی کی عوامی مقبولیت کا اندازہ ہو گا وہیں یہ جماعت اپنی آئندہ کی سیاسی حکمت عملی کا اعلان کرے گی۔ جلسے میں پی پی پی کے غیر اعلانیہ سربراہ جناب آصف علی زرداری کی غیر متوقع انٹری نے کچھ لوگوں کو حیران ضرور کیا تاہم اپنی مختصر مگر جامع تقریر اور دھمال کے ذریعے یوم تاسیس کا میلہ ذرداری صاحب نے اپنے نام کر لیا۔

یوم تاسیس کے جلسے میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک رہی جن کے لئے الگ پنڈال قائم تھا۔ اقلیتیوں کی شرکت کے پیپلز پارٹی کی غیر مذہبی بنیادوں پر سیاست کے دعوے کو تقویت دی۔ مسیحی برادری کے جلوس میں شامل لوگوں نے اپنی الگ شناخت کے لئے پارٹی جھنڈوں کے ساتھ ساتھ صلیبیں اٹھا رکھی تھیں اور جلسہ میں ان کی شرکت بھی دیگر کارکنوں جیسی ہی تھی۔

جلسہ میں نوجوانوں کی تعداد اگرچہ دیگر پارٹیوں کے اجتماعات کے مقابلے میں نسبتاً کم تھی تاہم جیالوں کا جوش و خرو ش ،جو اس پارٹی کا خاصہ ہے ، قابل دید تھا۔ ہر عمر کے کارکن کرسیوں کی پرواہ کئے بغیر جہاں جگہ ملی وہی کھڑے ہو کر جلسہ دیکھ رہے تھے ۔ بیچ بیچ میں نعروں اور دھمالوں کے ذریعے خون گرمایا جاتا رہا۔ ایک جگہ کچھ نوجوانوں خوانچہ فروش سے خریدے مرنڈے کھانے کے لئے زمین پر چوکڑی مارے بیٹھے تھے، ساتھ موجود دوستوں کی توجہ اس جانب دلوائی کہ نوجوانوں میں بھی جیالوں والاروایتی طرز عمل موجود ہے۔ جواب ملا کہ یہ عام لوگ ہیں اور عام لوگوں کی جماعت میں ایسا ہی ماحول ہوتا ہے یہاں وہی لوگ آتے جو اس ماحول میں سما سکیں۔ ویسے بھی انقلاب یا تبدیلی کے لئے برگر کھانا ضروری نہیں ،یہ مرنڈے کھانے والے بھی تبدیلی کا ایک اہم محرک ہیں۔

آزاد کشمیر کا پرچم تھامے ایک نوجوانون سے پوچھا کہاں سے آئے ہو ؟کہنے لگا فارورڈ کہوٹہ سے آج صبح نکلا ۔ راستے میں بس خراب ہو گئی اس لئے ذرا دیر سے پہنچا ۔ سوال کیا کہ آپ کی عمر کے زیادہ تر لوگ تو تحریک انصاف کے جلسوں میں جاتے ہیں۔کہنے لگا کے وہاں جانے کے لئے اچھی گاڑی اور عمدہ لباس کا ہونا ضروری ہے۔ میں عام آدمی ہوں یہ سب میسر نہیں اس لئے غریبوں کی جماعت میں ہوں ۔ جلسے میں بلاول بھٹو کی تقریر سننے آیا۔ وہ بھی اپنا ہم عمر ہے اور ایک نوجوان قائد کے ہوتے ہوئے دوسری جماعت میں جانے کی کیا ضرورت؟

جلسے کا نچوڑ سابق صدر آصف علی زردار ی کی تقریر تھی۔ جس میں انہوں نے پیپلز پارٹی کی روایتی بیانیے کے ساتھ ساتھ آمروں، نواز شریف اور عمران خان سمیت سب کو آڑے ہاتھوں لیکر یہ تاثر زائل کر دیا کہ ان کی جماعت اسٹیبلشمنٹ یا کسی دوسری پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملا کر چلنے کاارادہ کر چکی ہے۔ صدر زرداری نے پی پی پی کے مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان کی پارٹی پہلے کسی آمر کی حامی تھی اور نہ آئندہ حمائت کرے گی کیوں کہ آمر کا صرف ماضی اور حال ہوتا ہے،مستقبل نہیں۔ یہ بھی واضح کیا کہ ماضی میں نواز شریف اور ان کی جماعت کا مشکل وقت میں ساتھ دیا۔ اب ان کو بچانے کے بجائے جمہوریت بچانےخود میدان میں آئیں گے۔ عمران خاں کو کسی بات کی سمجھ نہیں اس لئے ان کو ساتھ لیکر چلنا تو ممکن نہیں۔ ماضی میں پیپلز پارٹی مفاہمت کرتی رہی تاہم مستقبل میں صرف اور صرف مزاحمت ہو گی۔

کشمیر، افغانستان اور دہشت گردی کے معاملے پر بھی صدر زرداری کھل کر بولے: بھارت بھول جائے کہ وہ پیپلز پارٹی کے ہوتے ہم سے کشمیر چھین لے گا۔ افغانستان اور پاکستان کو دہشت گردی جیسے مشترکہ دشمن کے خلاف مل کر لڑنے کی ضرورت ہے ۔ افغان ہمارے اپنے لوگ ہیں ہم غلط فہمیاں دور کر کے انہیں گلے لگائیں گے۔ اسی جلسے میں پیپلز پارٹی نے ایک لحاظ سے اپنے آئندہ کے انتخابی منشور کا بھی اعلان کر دیا۔

بلاول بھٹو کی تقریر شروع ہوئی تو کئی لوگ نے جلسہ گاہ سے واپس جانا شروع کر دیا ۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ زرداری صاحب نے جلسے کے اصل اغراض و مقاصد اور مستقبل کی منصوبہ بندی بیان کر دی لہذ اب ا بلاول بھٹو کی تقریر میں کسی نئی بات کا سامنے آنااب خارج از امکان ہے۔ جلسے کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ بھی تھا کہ ہزاروں لوگوں اور گاڑیوں کے پریڈ گراونڈ پہنچنے کے باوجود ارد گرد کی شاہراوں پر ٹریفک رواں دواں رہا البتہ شہری کی داخلی سڑکوں پر رش کی وجہ سے ٹریفک جام اور کچھ قافلوں کے نہ پہنچ سکنے کی اطلاعات ملتی رہی ہیں۔

گھر واپسی کے لئے ٹیکسی کرائے پر لی تو ادھیڑ عمر ڈرائیور بتانے لگامیں بھی بھٹو کا جیالا تھا۔ بی بی شہید کے بعد ہم جیسوں کی اہمیت کم ہو گئی ۔ ہمارے حلقے (این اے 49) میں پارٹی نے کھوکھروں(مصطفی نواز کھوکھر) کو ٹکٹ دیا ۔ کھوکھر ظالم لوگ ہیں ان کی حمائت نہیں کر سکتا تھا۔ پارٹی نہیں چھوڑی البتہ خاموشی اختیار کر لی ہے۔ آج بی بی شہید کے بیٹے(بلاول) کو دیکھنے آیا تھا۔ آتے ہوئے بھی سواری مل گئی جاتے ہوئے بھی ۔ مزدوری بھی کر لی جلسہ بھی دیکھ لیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے