اسرائیل بمقابلہ سعودی فوجی اتحاد

چاپلوسی کی بھی حد ہوتی ہے، جب کوئی حد سے زیادہ بگڑ جائے تو ہر عقلمند اُسے روکنے کی کوشش کرتا ہے لیکن چاپلوس ہروقت صرف واہ واہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

چاپلوسوں کی واہ واہ جب شروع ہوتی ہے تو پھر کہیں ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے حکمران بھی اور نام نہاد مفکرین و دانشمند بھی اپنے مفادات کے لئے اپنے آقاوں کی خوشامد اور چاپلوسی کے لئے واہ واہ میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔

صرف ہم پر ہی کیا بس، آپ دنیائے اسلام کا مرکز کہلانے والے سعودی عرب کو ہی لے لیں، مئی ۲۰۱۷ میں ریاض میں عالم اسلام کی عظیم کانفرنس منعقد ہوئی، اس کانفرنس میں ۵۵ اسلامی ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی۔

اس کانفرنس میں ٹرمپ کی آمد پر جو جشن منایا گیا اور جو بھنگڑے ڈالے گئے وہ اپنی مثال آپ ہیں، لیکن شاباش دیجئے آپ اُن چاپلوسوں کو جنہوں نے اس کانفرنس میں ٹرمپ کی شمولیت، اس کے خطاب اور اس کے چاپلوسانہ استقبال پر بحیثیت مسلمان کوئی اعتراض کرنے کے بجائے سعودی بادشاہوں کے دفاع اور اُن کی چاپلوسی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے۔ یعنی چاپلوسی در چاپلوسی کا ریکارڈ قائم کیا گیا۔

بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حضرت شاہ سلمان اس کانفرنس میں حضرت ٹرمپ کو سنتیں سکھا رہے تھے۔ خیر مسٹر ٹرمپ نے شاہ سلمان سے سنتیں سیکھنے کے ساتھ ساتھ جو بھاری بھرکم ہدایا وصول کئے وہ بھی اہلِ شعور سے مخفی نہیں ہیں۔

اگر اس روز چاپلوس حضرات چاپلوسی کے بجائے غلط کو غلط کہہ دیتے تو آج مسٹر ٹرمپ کومقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی جرات نہ ہوتی۔

اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو نے امریکی صدرکے فیصلے کوتاریخی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اب کسی بھی امن معاہد ے میں مقبوضہ بیت المقدس بطوراسرائیلی دارالحکومت شامل ہوگا۔

یہ اسرائیل بھی وہی ہے اور امریکہ بھی وہی ہے، ریاض کانفرنس میں خطاب کرنے کے بعد ٹرمپ نے اسرائیل کا دورہ ہی تو کیا تھا، یعنی امریکہ، سعودی عرب ، اسرائیل اور ان کے چاپلوس ۔ یہ ایک ایسا مربع ہے جس کے اندر عالمِ اسلام کے خلاف سازشوں کاہر مربّہ تیار ہوتا ہے۔

گزشتہ روز ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے کہاہے کہ اسرائیلی دارالحکومت کی منتقلی کے فیصلے پر عملدرآمدکو یقینی بنایاجائےگا۔

اگر کہیں پر سعودی عرب کی امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ملی بھگت پر بات کی بھی جاتی ہے تو چاپلوس حضرات اسے سرزمینِ حرم سے دشمنی قرار دے دیتے ہیں ، یعنی چاپلوسوں کے نزدیک سرزمینِ قدس، سرزمینِ حرم نہیں ہے اور قدس کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی ان کے نزدیک فلسطینی مسلمان ہیں۔

چاپلوس صرف اور صرف آلِ سعود کے خادم ہیں ، انہیں قدس اور فلسطین کی آزادی سے کوئی غرض نہیں۔ ان چاپلوسوں نے طالبان اور داعش بن کر پاکستان سمیت دنیا بھر میں جتنی تباہی مچاہی ہے اگر یہ اتنی جدوجہد اسرائیل کے خلاف کرتے تو یقیناً اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔

لیکن چونکہ ان کا ہدف ہی پاکستان و عراق و شام سمیت تمام اسلامی ممالک کی قومی فوج، عوامی مراکز اور ملکی سلامتی کو نشانہ بنانا تھا ، اس لئے انہوں نے نہتے لوگوں کے گلے تو کاٹے، عوامی مراکز پر خود کش حملے تو کئے لیکن کبھی اسرائیل کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا۔پاکستان میں ٓرمی پبلک سکول پشاور سے لے کر شام کے شہر حلب اور عراق کے موصل میں ہر طرف ان کی وحشت و بربریت کی داستانیں رقم ہیں لیکن حکومت اسرائیل کے لئے ان کے سینے میں فقط پیار ہی پیار موجزن ہے۔

انہیں آرمی پبلک سکول کے ننھے منے بچے تو مشرک نظر آتے ہیں لیکن ٹرمپ مشرک نہیں نظر آتا ، یہ کسی دوسرے فرقے کے مسلمان کی تقریر سن لیں تو ان کے نکاح ٹوٹ جاتے ہیں لیکن ٹرمپ کےارشادات عالیہ سننے سے ان کے نکاح نہیں ٹوٹتے، یہ ریاض کانفرنس میں ایران کے خلاف تقریریں تو کر سکتے ہیں اور ایک بڑی فوج تو تیار کر سکتے ہیں لیکن فلسطین کی آزادی کے لئے ریاض میں اسلامی افواج کے سربراہوں کی ایک کانفرنس نہیں بلا سکتے۔

یاد رکھئے !بات ممالک اور مسالک کی نہیں ہے، بات، جذبہ ایمانی ، غیرت دینی حق اور باطل کی ہے۔

کیا اس دنیا میں اسرائیل سے بڑھ کر بھی کوئی دہشت گرد ہ! اگر نہیں تو پھر کہاں ہے وہ بین الاقوامی سعودی فوجی اتحاد اور کیوں اس عالمی سعودی آرمی کو سانپ سونگھ گیا ہے!!!

یقین جانیے اور لکھ کر رکھ لیجئے کہ دینا چاہے اِدھر سے اُدھر ہوجائے ، طالبان اور داعش کی طرح یہ فوجی سعودی اتحاد بھی، کبھی بھی اسرائیل کے خلاف ایک گولی تک نہیں چلائے گا۔

جی ہاں بالکل ایک گولی تک نہیں چلائے گا چونکہ جب ملتوں سے غیرت اور حق پرستی ختم ہو جاتی ہے تو زبانیں حق گوئی کے بجائے خوشامد کے لئے اور تلواریں دشمنوں کے خلاف چلنے کے بجائے رقص کے لئے استعمال ہونے لگتی ہیں۔

آخر میں قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ بقولِ شاعر

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے