تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے دنیا کا پہلا ’ زندہ ٹیٹو‘ تیار

بوسٹن: ماہرین نے زندہ بیکٹیریا کے خلیات پر مبنی ایسا ٹیٹو تیار کیا ہے جو رنگ بدلتا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا کے مشہور ترین ادارے میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ماہرین نے تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے دنیا کا پہلا زندہ ٹیٹو بنایا ہے۔
یہ ٹیٹو بیکٹیریا کے زندہ خلیات پر مشتمل ہے اور کئی طرح سے متحرک ہونے کے بعد رنگ بدلتا ہے جسے ذرا سی تبدیلی کرکے کئی کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ٹیکنالوجی میں ہوش رُبا ترقی کے بعد کئی طرح کے ایسے الیکٹرونک سینسر اور اسٹیکر بنائے جارہے ہیں جو انسانی کھال سے چپک کر صحت پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف امور انجام دیتے ہیں۔ لیکن ایم آئی ٹی کے ماہرین نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیکٹیریا کے خلیات سے ایک ٹیٹو بنایا ہے جو تھری ڈی پرنٹنگ مشین کے ذریعے تیار ہوتا ہے۔ بیکٹیریا زندہ ہونے کی بنا پر مختلف کیمیکل پر مختلف ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں اور رنگ بدلتے ہیں۔

اس وقت دنیا بھر میں اسمارٹ انک کا بھی تذکرہ ہے جو انسانی جسم اور کپڑوں پر برقی سرکٹ بناسکتی ہے۔ ایسی روشنائیوں سے سینسر والے لباس اور ان گنت کام کی اشیا بنائی جارہی ہیں۔

نئی کوشش میں سائنسدانوں نے پہلے مرحلے میں بیکٹیریا کے خلیات لیے اور انہیں ان کی مضبوط خلوی دیوار کی بنا پر منتخب کیا تاکہ وہ تھری ڈی پرنٹر میں جانے کے بعد شدید دباؤ برداشت کرسکیں اور وہ بیکٹیریا پرنٹنگ والے ہائیڈروجیلز میں آسانی سے سماگئے۔
جب زندہ ٹیٹو کو انسانی ہاتھ کی جلد پر لگایا گیا اور اس پر خاص کیمیکل ڈالے گئے تو بیکٹیریا شاخ در شاخ آگے بڑھنے لگے۔ اس طریقے کو بہتر بناکر انسانی جسم میں دوا پہنچانے کےلیے استعمال کیا جاسکے گا۔ ٹیم کا خیال ہے کہ اس سے ’زندہ کمپیوٹر‘ بنانے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔ یعنی ایک پیچیدہ نظام میں زندہ اجسام عین اسی طرح معلومات کا تبادلہ کریں گے جس طرح کمپیوٹر میں مائیکروچپس اور ٹرانسسٹر کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ پورے لباس پر کمپیوٹر چھاپ کر اس سے وہی کام لیا جاسکے گا جو آج ہم فون اور لیپ ٹاپ سے لیتے ہیں۔ اسے طب کے شعبے میں مریضوں کی کیفیت جاننے کےلیے بھی استعمال کیا جاسکے گا اور یوں کئی قیمتی جانیں بچانا ممکن ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے