معاشرتی ہم اآہنگی کیلئےروزمرہ زندگی میں جملوں کی حساسیت اور ہماراطرزعمل…!!!

اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ ایک زمانہ تھا جب بیشتر لوگوں کے پاس روپیہ پیسہ بلکل نہیں تھا مگر زندگیوں میں رزق میں برکت بڑی تھی۔ لوگ سادہ اور ایک دوسرے کا احساس کرنے والے تھے۔پھر زمانہ بدلا اور نمود و نمائش عام ہو گئی اور پھر سونے پر سہاگہ فیس بک نے اس نمود و نمائش کو بھی چار چاند لگا دیئے اور پھر یوں ہوا کہ صبر شکر جاتا رہا اور ہمارے دیسی امن و آشتی کے معاشرے میں حسد کینہ اور اس جیسے امراض بڑھنے لگے اور یہی وجوہات چوری،ڈکیتی، راہزنی اغواء اور قتل تک جیسےمعاشرتی جرائم میں اضافے کا بنیادی سبب بنیں۔ میرے ساتھی پروڈیوسرز رانا شہزاد السلام، محمد آصف اور ان سے دو تین ماہ پہلے بعض دوست احباب خواتین و حضرات نے مجھے یہ اچھا اور ہمارے معاشرے میں فسادات کی اہم وجہ کو مخاطب کرنے والاواٹس ایپ میسج بھیجا جو پیش خدمت ہے.
” ﺍﯾﮏ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼﺳﮩﯿﻠﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺑﭽﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﯾﺎ ؟؟؟
ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽﻧﮩﯿﮟ!!!!
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮧﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟؟؟
ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ؟؟؟
ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺯﮨﺮﯾﻼ ﺑﻢ ﮔﺮﺍﮐﺮ ﻭﮦ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻄﺎﮞ ﻭ ﭘﯿﭽﺎﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﯽ ﺑﻨﯽ!!!!
ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮﺑﻌﺪ ﻇﮩﺮ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﺎﺷﻮﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﯾﺎﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍﭘﺎﯾﺎ، ﭘﮭﺮﺩﻭﻧﻮﮞﮐﺎ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮﺍﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻟﻌﻨﺖ ﺑﮭﯿﺠﯽ ﻣﺎﺭﭘﯿﭧ ﮨﻮﺋﯽﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻃﻼﻕ ﺩﮮﺩﯼ۔۔۔گھر برباد ہوگیا۔۔!!!!
ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ مسئلہ ﮐﯽ ﺷﺮﻭﻋﺎﺕ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ؟؟؟
ﺍﺱ ﻓﻀﻮﻝ ﺟﻤﻠﮯ ﺳﮯﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﯿﺎﺩﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﺋﯽ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ!!!!
اسی طرح زید نے حامد سے پوچھا!!
تم کہاں کام کرتے ہو؟؟
حامد : فلاں دکان میں!!
مالک ماہانہ کتنی تنخواہ دیتاہے؟؟
حامد:18000 روپے!!
زید: 18000 روپے بس۔۔۔!!! تمہاری زندگی کیسے کٹتی ہے اتنے کم پیسوں میں؟؟
حامد۔۔۔۔گہری سانس کھینچتے ہوئے ۔ بس یار کیا بتاوں!!
میٹنگ ختم ہوئی!!
کچھ دنوں کے بعد حامد اب اپنے کام سے بیزار ہوگیا ، اور تنخواہ بڑھانے کی ڈیمانڈ کردی، جسے مالک نے رد کردیا، نوجوان نے جاب چھوڑ دی اور بے روزگار ہوگیا،پہلے اس کے پاس کام تھا اب کام نہیں رہا!!!
ایک صاحب نے ایک شخص سے کہا جو اپنے بیٹے سے الگ رهتا تها!!
تمہارا بیٹا تم سے بہت کم ملنے آتا هے کیا اسے تم سے محبت نہیں؟؟
باپ نے کہا: بیٹا مصروف رهتا هے، اس کے کام کا شیڈول سخت ہے .اسکے بیوی بچے هیں.اسے بہت کم وقت ملتا ہے!!
پہلا آدمی بولا: واہ یہ کیا بات هوئی.تم نے اسے پالا پوسا اسکی هر خواهش پوری کی اب خود کو خوامخواہ سمجهاتے هو کہ اس کو مصروفیت کی وجہ ملنے کا وقت نہیں ملتا یہ تو نہ ملنے کا بہانا ہے!!
اس گفتگو کے بعد: باپ کے دل میں بیٹے کے لئے خلش سی پیدا هوگئی.بیٹا جب بهی ملنے آتا وہ یہ هی سوچتا رهتا کہ اسکے پاس سب کے لئے وقت هے سوائے میرے!

یاد رکهیں!زبان سے نکلے الفاظ دوسرے پر بڑا گہرا اثر ڈال سکتے هیں!
ﺑﮯ ﺷﮏﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺑﻮﻝ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ!
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﻭﺯ ﻣﺮﮦ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻟﮕﺘﮯ
ﮨﯿﮟ!
ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟﺧﺮﯾﺪﺍ؟
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ؟
ﺗﻢ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻞﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮ؟
ﺗﻢ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﺎﻥﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺑﯿﺸﺘﺮﺳﻮﺍﻻﺕ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﯾﺎ ﺑﻼﻣﻘﺼﺪ ﮨﻢ ﭘﻮﭼﮫ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ
ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﻔﺮﺕ ﯾﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺑﯿﺞ ﺑﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ!

آج کے دور میں ہمارے ارد گرد یا گھروں میں جو فسادات ہو رہے ہیں، ان کی جڑ تک جایا جائے تو اکثر اس کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ ہوتا ہے ،وہ یہ نہیں جانتے کہ نادانی میں یا جان بوجھ کر بولے جانے والے جملے کسی کی زندگی کو تباہ کر سکتے ہیں!
ﻓﺴﺎﺩ ﭘﮭﯿﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ نہ ﺑﻨﻮ!!
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟﺍﻧﺪﮬﮯ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺟﺎﻭ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﻮﻧﮕﺎ ﺑﻦﮐﺮ ﻧﮑلو۔۔۔
معاشرے میں بگاڑ کیلئےشیطان کے بہترین ہتھیار یہی عوامل ہیں جن کا اوپر والے میسج میں ذکر ہے۔جبکہ رحمان اللہ کریم  نے اس دنیا میں جتنے بھی مذہب بھیجے سب کی بنیادی تعلیمات امن و ہم آہنگی اور انسانیت کی قدر ہے۔ ہمارے معاشرے میں موجود منفی سوچ کے حامل افراد کی طرف سے بگاڑ اور فتنہ و فساد پیدا کرنے اور غیبت کی طرح کا ایک  عمومی مسئلہ یہی زو معنی جملے اور الفاظ ہیں جن سے نہ صرف ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات یہ شیطانی الفاظ خونی رشتوں سگے بہنوں بھائیوں کے درمیان زندگی کا رشتہ تک ختم ہونے یا مارنے مرنے تک کاباعث بن جاتے ہیں۔مثبت سوچ والے لوگ نہ صرف صبر شکر کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں ہم آہنگی اور بھائی چارے کے فروغ کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔اللہ ہمیں محبت اور بھائی چارے کے فروغ کا ذریعہ بنائے نا کہ ہم لوگوں کے دلوں میں فرق ڈالنے کا باعث بنیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے