سفرافغانستان۔ مشاہدات اور تاثرات

مجھے احساس ہے کہ افغانستان، پاکستان کے قبائلی علاقہ جات ، بلوچستان اور گلگت بلتستان جیسے موضوعات کی زیادہ ریٹنگ آتی ہے اور نہ ووٹنگ میں اس کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔ ان موضوعات پر لکھنے اور بولنے کی قیمت کالم نگار، ٹی وی اینکر اور میڈیا آرگنائزیشن دونوں کو ادا کرنی پڑتی ہے جبکہ اس کے برعکس سیاست کے چٹخارے دار موضوعات پر لکھنے یا پھر سیاستدانوں کو بٹھا کر لڑانے میں خطرہ کوئی نہیں جبکہ ریٹنگ بھی بہت آتی ہے۔ تاہم اگر پاکستان کی سلامتی اور مستقبل کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان موضوعات سے زیادہ اہم کوئی موضوع نہیں۔پاکستان کے دشمنوں کی نظریں افغانستان ، بلوچستان ، گلگت بلتستان اور قبائلی علاقے پر لگی ہوئی ہیں،عالمی اورعلاقائی طاقتوں کی ساری سازشوں کے گڑھ یہ علاقے بنے ہوئے ہیں ، یہی علاقے ہی اسلام آباد ، لاہور اور کراچی کے لئے دشمنوں کے لانچنگ پیڈ ہیں اوریہی علاقے ہیں جن کے حالات پر پورے پاکستان کے معاشی مستقبل کا انحصار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات میں پاکستان کے سیاسی ڈراموں سے صرف نظر کرکے ان افغانستا ن یا پھر پاکستان کے مذکورہ علاقوں کو سمجھنے اور وہاں کے حالات سے اپنے قارئین کو آگاہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ۔ اس غرض کیلئے گزشتہ ہفتے میں نے اسلام آباد سے کابل، کابل سے قندھار اور قندھار سے بذریعہ سڑک کوئٹہ تک کا سفر کیا ۔ اس سفر میں ’’جرگہ‘‘ کے سینئر پروڈیوسر چوہدری خالد عمر اور میری ٹیم کے دیگر اراکین بھی ساتھ رہے ۔ سفرکا بنیادی مقصد جرمن تنظیم ایف ای ایس کے زیراہتمام پاکستان کے سینئر صحافیوں کا افغان حکام ، صحافیوں اور سول سوسائٹی سے ملاقاتوں میں شرکت کرنا تھا ۔ اس وفد کی افغان چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ، کئی وزراء ، اراکین پارلیمنٹ ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے رہنمائوں سے تفصیلی بات چیت ہوئی جبکہ پاکستانی سفارتخانے کے عشائیہ میں وہاں تعنیات حکام سے بھی تبادلہ خیالات کا موقع ملا۔وفد کے باقی شرکاء کابل سے اسلام آباد واپس آگئے جبکہ میں نے اپنی ٹیم کے ساتھکابل سے قندہار اور پھر قندھار کے راستے کوئٹہ تک بذریعہ سڑک سفر کا قصدکیا۔
افغانستان سے مجھے لگائو ہے۔ پاکستان کے بعد اگر کوئی ملک اور وہاں کے عوام مجھے عزیز ہیں تو وہ افغانستان ہے لیکن افغانستان صرف اپنی قلبی لگائو کی وجہ سے میرے لئے اہم نہیں بلکہ اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ افغانستان میں امن کے بغیر پاکستان میں امن نہیں آسکتا ۔ یہ ایک سیاسی اورسفارتی بیان نہیں بلکہ ناقابل تردید حقیقت ہے کیونکہ اس سفر کے دوران بھی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ روزانہ بیس سے تیس ہزار افغانی بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے طورخم اور چمن کے راستوں سے پاکستان میں داخل ہوتے اور واپس جاتے ہیں ۔ اسی طرح پاکستان میں آج بھی لاکھوں افغان مقیم ہیں جو گلگت سے کراچی تک اور گلگت سے کوئٹہ تک پھیلے ہوئےہیںجبکہ ہزاروںکلومیٹرسرحدپر غیرروایتی راستوں سے آمدورفت اس کے علاوہ ہے ۔ اب ایسے عالم میں جب پشاور اور کابل کے درمیان زمینی مسافت پانچ گھنٹے اور کوئٹہ و قندھار کی مسافت صرف چار گھنٹے ہو اور چمن کراسنگ پوائنٹس پر چیکنگ کی یہ صورت حال ہو کہ نوے فی صد سے زیادہ لوگ بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے آجا رہے ہوں تو کس طرح افغانستان کے حالات سے پاکستان متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا ہے ۔ اس تناظرمیں سب پاکستانیوں کے لئے بری خبر یہ ہے کہ افغانستان کے حالات نہایت خراب ہیں اور مزید خرابی کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد میں پہلی مرتبہ نہایت بوجھل دل کے ساتھ افغانستان سے واپس لوٹا ہوں۔ ایسا ہر گز نہیں کہ افغانستان میں ہر جگہ جنگ ہورہی ہے ۔ افغانستان میں آج بھی زندگی کی چہل پہل عام بلکہ پاکستانیوں کے تصور کے برعکس بہت زیادہ ہے ۔ کابل اور دیگر شہروں میں بڑے بڑے پلازے اور شاپنگ مال بن چکے ہیں اور وہاں رش ناقابل یقین ہوتا ہے ۔ کوئی ملک ایسا نہیں جس کے فوڈ کے ریسٹورنٹ کابل شہر میں قائم نہ ہو۔ ہم پاکستان میں اپنے پی ایس ایل کے تمام میچز منعقد نہ کرواسکے لیکن افغانستان نے اپنا کرکٹ سپر لیگ (شبپگیزہ) کابل میں ہی منعقد کروا دیا۔افغانی میوزک کے دلدادہ ہیں اور کابل میں میوزک کنسرٹس کی بہتات کا یہ عالم ہے کہ پشاور اور کوئٹہ کے زیادہ ترگلوگاروں کی روزی روٹی بھی پاکستان سے زیادہ کابل سے وابستہ ہے پارلیمنٹ قائم ہے اور وہاں پر مباحثہ پاکستانی پارلیمنٹ سے زیادہ ہوتا ہے ۔ پاکستان کی طرح درجنوں ٹی وی چینلز کا میلہ بھی گرم ہے لیکن نائن الیون کے بعد ہر سال جب بھی میں افغانستان گیا ، مجھے سیاسی، ثقافتی اور معاشی سرگر میاں بڑھتی ہوئی نظر آئیں جبکہ اب کے بار مجھے وہ پہلی مرتبہ ماند ہوتی نظر آرہی تھیں۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں دہشت گردی کا اس قدر خوف مجھے پہلے کبھی نظر نہیں آیا تھا جتنا کہ اب نظر آرہا تھا۔ ماضی میں پاکستان کے خلاف نفرت صرف محدود حلقوں تک محدود تھی لیکن اب کی بار میں نے دیکھا کہ عام افغانی بھی اپنے مسائل کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھنے لگا ہے ۔ افغان رہنمائوں ، سول سوسائٹی اور میڈیا کے آپس کے اختلافات ناقابل تصور حد تک زیادہ ہیں لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ پاکستان سے شکایت اور ڈیلنگ کے معاملے میں وہ سب یک زبان اور ایک صفحے پر ہیں ۔
اسی طرح افغانستان میں سیکورٹی کا مسئلہ نائن الیون کے بعد ہر سال موجودر ہا لیکن سیاسی اور معاشی حوالوں سے افغانستان مسلسل استحکام کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ اب یہ بھیانک تبدیلی آئی ہے کہ جہاں سیکورٹی کا چیلنج سنگین ہورہا ہے ، وہاں افغانستان بدترین سیاسی عدم استحکام کی طرف بھی بڑھ رہا ہے اور امید کی جگہ مایوسی یا پھر کنفیوژن نے لے لی ہے ۔ سیاسی ابتری کا یہ عالم ہے کہ افغان پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرچکی ہے لیکن دو سال گزرنے کے باوجود نئے انتخابات منعقد نہیں ہورہے۔ رشید دوستم افغانستان کے نائب صدر ہیں لیکن وہ ترکی میں جا بیٹھا ہے اور اپنے ملک واپس نہیں آسکتا۔ صلاح الدین ربانی ، افغان حکومت کے وزیر خارجہ ہیں لیکن اپنے صدر کے ساتھ ان کے تعلقات نہایت کشیدہ ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کے مقابلے میں سابق صدر حامد کرزئی سے ملاقاتیں کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔ اشرف غنی اگر امریکی صدر ٹرمپ کے منظور نظر ہیں تو حامد کرزئی کو روسی صدر پوٹن اپنے دائیں ہاتھ بٹھاکے رکھتے ہیں ۔ اشرف غنی نے طالبان کی سرکوبی کے لئے امریکیوں کو مکمل اختیارات دے دیئے ہیں جبکہ حامد کرزئی ، امریکیوں کی موجودگی کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار دے کر ان کے انخلا کیلئے لویہ جرگہ طلب کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ افغانستان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ وہ عبداللہ عبداللہ حکومت میں بیٹھے ہیں جنہوں نے ان کے خلاف انتخاب لڑا تھا جبکہ انتخابات میں ان کی بھرپور حمایت کرنے والے انوارالحق احدی وغیرہ نے اشرف غنی کے خلاف سیاسی تحریک شروع کردی ہے جس کو کئی گورنروں اور بعض وزیروں کی تائید بھی حاصل ہے ایک خطرناک عامل یہ سامنے آیا ہے کہ داعش کا اثرورسوخ تیزی کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے اور سابق صدر حامد کرزئی کے علاوہ کئی وزراء اور اراکین پارلیمنٹ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ خود امریکی داعش کو درپردہ سپورٹ کررہے ہیں ۔جبکہ اشرف غنی اور دیگر درجنوں قائدین امریکی ڈرون حملوں میں داعش کے رہنمائوں کی ہلاکتوں کی مثالیں دے کر ان کے دعوے کو جھٹلارہے ہیں ۔ غرض اس وقت کابل میں بیٹھے ہر لیڈر اور ہر دانشور کی اپنی اپنی تشخیص ہے اور ہر ایک الگ الگ فلسفہ پیش کررہا ہے ۔ طالبان کا خطرہ ابھی کم نہیں ہوا کہ داعش کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے ۔ امریکی ابھی نکلے نہیں کہ روس اور چین دخیل ہونے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ پاکستان وہندوستان یا پھر ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار ابھی تھمی نہیں کہ کئی دیگر عالمی اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی وار زور پکڑرہی ہے ۔ ایک طرف یہ کنفیوژن اور بے یقینی ہے تو دوسری طرف افغانستان کی نوجوان نسل ہے ۔ یہ نسل ٹی وی ، فیس بک اور ٹویٹر کے ساتھ جوان ہوئی ہے ۔ یہ وہ نسل ہے جس نے باہر کی دنیا کو بھی دیکھ لیا اور باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو بھی ۔ یہ نسل جنگوں سے نفرت کرتی ہے ۔ وہ امن چاہتی ہے ، روزگار چاہتی ہے اور ترقی چاہتی ہے ۔ وہ فنون لطیفہ اور کرکٹ کی دلدادہ ہے ۔ اس نسل کو غیرملکی افواج کی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں ۔ وہ وارلاڈزم اور کرپشن سے تنگ ہے اور اسی نسل نے ہی گزشتہ انتخابات میں ڈاکٹرا شرف غنی کو ووٹ دیا تھا۔ یہ نسل طالبان کی کارروائیوں سے خوفزدہ ضرور ہے لیکن وہ نہ طالبان کے دور کو واپس دیکھنا چاہتی ہے اور نہ مجاہدین کے دور کو۔
تباہی سے بچنے کے مجھے دو راستے نظر آتے ہیں ۔ ایک یہ کہ افغان قیادت آپس میں بیٹھ کر اور ماضی سے نکل کر ایک نئے سوشل کنٹریکٹ پر دستخط کرلیں ۔ اس صورت میں کسی تیسرے ملک کو انہیں استعمال کرنے اور آپس میں لڑانے کا موقع نہیں ملے گا۔ جب طالبان اور کابل حکومت آپس میں بیٹھ کر مسئلے کو حل کریں گے تو نہ غیرملکی افواج کی موجودگی کا جواز باقی رہے گا اور نہ پڑوسیوں کو مداخلت کا راستہ ملے گا ۔ لیکن اگر یہ راستہ ممکن نہ ہو اور کچھ لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ چونکہ مختلف افغان فریق اپنی مرضی کے مالک نہیں اس لئے وہ یہ کام نہیں کرسکتے تو دوسرا راستہ پھر باہر سے حل درآمد کرنے کا ہے ۔ میرے نزدیک اس کا مناسب ترین راستہ یہ ہے کہ پاکستان ، افغانستان، چین ، روس اور ایران مل کر ایسا راستہ نکال لیں کہ جس میں امریکہ اور مغرب کے خدشات اور مفادات کوبھی مدنظر رکھا گیا ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے