بیچاری امت مسلمہ

میں غالباً پانچ سال کا تھا جب لفظ ’’امت مسلمہ‘‘ میرے کانوں میں پہلی مرتبہ پڑا، اس وقت میں سمجھا یہ کسی عورت کا نام ہے (غضب خدا کا ایک تو عورت جان نہیں چھوڑتی)، تھوڑا بڑا ہوا تو اس لفظ کے ساتھ کبھی کشمیر اور کبھی فلسطین کا ذکر سننے کو ملا، اس کی ککھ سمجھ نہیں آئی، پھر نماز کے لئے مسجد میں جانا ہوا تو جمعے کے جمعے دعاؤں میں کشمیر کی آزادی، فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا احوال اور امت مسلمہ کے اتحاد کی باتیں کانوں میں پڑنے لگیں، اور تو کچھ پلے نہ پڑا البتہ یہ ضرور پتہ چل گیا کہ جب مولوی صاحب دعا مانگتے ہوئے فلسطین تک پہنچیں گے تو سمجھو دعا ختم ہونے والی ہے، اِن دعاؤں کا پتہ عید اور دیگر تہواروں کے موقع پر پی ٹی وی کے خبرنامے سے بھی چلتا۔ اسکول جانے کیلئے جو وین ہمیں لینے آتی تھی اس کے ’’انکل‘‘ بہت پڑھے لکھے تھے، انہیں دنیا جہان کی باتو ں کا علم ہوتا تھا، ہم اُن سے ہر اوٹ پٹانگ بات پوچھتے اور وہ ہنستے ہوئے ہمیں ہر بات کا شافی جواب دیتے مگر ایک روز مجھے بڑی حیرت ہوئی جب انہوں نے الٹا مجھ سے ہی پوچھ لیا کہ یار یہ فلسطین کا کیا مسئلہ ہے؟ تب مجھے پہلی مرتبہ اندازہ ہوا کہ یقیناً یہ کوئی گھمبیر مسئلہ ہے جو انکل کی سمجھ میں بھی نہیں آیا۔ اس زمانے میں ایران عراق جنگ، بیروت اور نگورنو کاراباخ کا بھی خبروں میں بہت ذکر سننے کو ملتا تھا، جنگ کی تو کچھ نہ کچھ شُد بد تھی البتہ پی ٹی وی کی نیوز کاسٹر کی زبان سے نگورنو کاراباخ سن کر لگتا جیسے وہ کالا باغ ڈیم کی بات کرنا چاہ رہی ہو مگر غلطی سے منہ سے کارا باخ نکل گیا ہو۔ رفتہ رفتہ یہ سب ازبر ہو گیا۔ اب کشمیر، فلسطین، مسلم امہ، ملت اسلامیہ، سازشیں…..جب یہ سب کچھ اکٹھا سننے کو ملتا تو سمجھ آ جاتی کہ جمعہ یا عید کی نماز کے بعد دعا ہو رہی ہے یا کہیں کسی احتجاجی جلسے کا احوال بیان کیا جا رہا ہے۔
اتنے برس بعد بھی حالات جوں کے توں ہیں بس ذرا سی تبدیلی یہ آئی ہے کہ امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ اب روہنگیا کا اضافہ بھی ہو گیا ہے، گویا پہلے ہم صرف کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کے لئے دعائیں کرتے تھے اب روہنگیا کے مسلمانوں کے لئے بھی کرتے ہیں۔ ایک اور تبدیلی اکتالیس مسلم ممالک کی متحدہ فوج کی شکل میں بھی آئی ہے مگر فی الحال اس اتحاد کا دعاؤں کی قبولیت میں فعال کردار ادا کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا سو مسلم امہ کو پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا پڑے گا یعنی دعائیں ہی مانگنی پڑیں گی۔ ہاں یاد آیا، ایک چیز تنظیم برائے اسلامی ممالک (او آئی سی) نام کی بھی ہے مگر اس کا کام بھی فقط مذمتی قرارداد پاس کرنا ہے اور تنظیم یہ کام پوری تندہی سے برسہا برس سے انجام دے رہی ہے۔ ’’مسلم امہ بے حس ہے اور اس میں اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں‘‘ یہ بات پہلے دانشوری کہلاتی تھی اب دودھ پیتے بچے کو بھی اس کا علم ہے سو ہم اس تفصیل میں نہیں جائیں گے اور چند نسبتاً نئے ایشوز کو لے کر مسلم امہ کا ماتم کریں گے۔ امت مسلمہ چونکہ ایک قسم کی بارہ مسالحے کی چاٹ ہے، ا ِس لئے ماتم کرتے ہوئے آپ کو ہر قسم کا مواد مل جاتا ہے، حجاب کی پابندی سے لے کر نوبیل انعام کی ناانصافی تک اور اسرائیل کی غیر قانونی آبادکاری سے لے کر روہنگیا کے قتل عام تک۔ مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کا المیہ تو باقی امت سے بھی زیادہ ہے، ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو خوشحال اور محفوظ مستقل کی خاطر مغرب میں آ بسے ہیں، یہاں کی سہولتوں اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، قانون کی عملداری، گڈ گورننس اور شخصی آزادی بھی انہیں چاہئے مگر مغرب کی مادر پدر آزادی نہیں چاہئے بلکہ بچوں کو مارنے کا اختیار چاہئے، ساحل سمندر پر بکنی نہیں برقینی چاہئے، کالج میں اسکرٹ نہیں حجاب چاہئے، رشتہ گورے سے نہیں پاکستانی سے چاہئے۔ دوسری طرف ہم جیسے ہیں جو خود کو امت مسلمہ کا جینوئن حصہ سمجھتے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ تمام دنیا پر ہمارا قبضہ ہو اور اُس سے بھی پہلے ہماری تمنا ہے کہ تمام مسلمان ممالک ایک لڑی میں خود کو پرو کر کسی ایک خلیفہ کو منتخب کریں، جو سوا ارب مسلمانوں کا منتخب کردہ سپہ سالار ہو، گھوڑے کو ایڑ لگا کر وہ قطب شمالی سے قطب جنوبی تک کا علاقہ مسلمانوں کے تصرف میں لے آئے، بحوالہ سلطنت عثمانیہ، حورم سلطان پارٹ ٹو۔ کچھ مجاہد اس مشن کی تکمیل کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں مگر ظاہر کہ اس کام میں تھوڑا وقت لگے گا سو اُس وقت تک ہمارا مطالبہ ہے کہ اسرائیل کے مستقبل کا فیصلہ ہم سے پوچھ کر کیا جائے…..اور اگر یہ بھی مشکل ہے تو مغربی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے ہم امریکہ کو دھول تو چٹا ہی سکتے ہیں۔
آج کل مسلم امہ کو ڈونلڈ ٹرمپ پر بہت غصہ ہے، امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امت مسلمہ کے غیظ و غضب کو آواز دے دی ہے، اسے اندازہ ہی نہیں کہ مسلم امہ بپھر کر کیا کچھ کر سکتی ہے۔ بے شک ہم غریب ہیں پر بے غیرت نہیں۔ امریکی شہریت سے کم پر بکنے کو ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ کیا امریکہ کو نظر نہیں آتا کہ اس بیہودہ فیصلے کے خلاف مسلم امہ نے چھاتی پیٹ پیٹ کر اپنا کتنا برا حال کر لیا ہے، کیا امریکہ کو اندازہ ہے کہ اُس کے فیصلے کے ردعمل کے طور پر اگر مسلم دنیا نے اسرائیل کے خلاف اتحاد بنا کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو اُس صورت میں امریکہ سے اسلحہ یا امداد مہیا کرنے کی منتیں نہیں کی جائیں گی، بس ایک دو مرتبہ درخواست کرکے دیکھا جائے گا، اگر امریکی حکومت مان گئی تو ٹھیک ورنہ وہی غیرت مند قوم کا منترا دہرایا جائے گا اور امت مسلمہ کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگی جائیں گی۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ اب مجھے مسلم امہ کچھ کچھ مظلوم بھی لگتی ہے، اُس عورت کی طرح ہے جس کے سر سے ہر راہ چلتا ہوا شخص چادر نوچنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے قصور گنواتا ہے، اس کی خرابیوں کی تفصیل بیان کرتا ہے، اس کے زوال کے اسباب پر روشنی ڈالتا ہے اور پھر اسے کامیابی کا فارمولا بتا کر اپنی ہمدردی اور نیک نیتی کا ثبوت بھی دیتا ہے۔ دنیا میں جہا ں کہیں بم دھماکہ ہو تو مسلمان دعا مانگتے ہیں یااللہ کسی مسلمان کا نام نہ نکلے، اگر کسی واقعے میں کوئی کتا بھی زخمی ہو جائے اور کوئی مسلمان اس کا ذمہ دار نکل آئے تو جھٹ سے واقعہ دہشت گردی مانا جاتا ہے اور اگر یہ کسی غیر مسلم گوری چمڑی والے کا کام ہو تو اسے لاوارث، ذہنی مریض یا lone wolfکہہ کر دہشت گردی کے کھاتے سے نکال دیا جائے گا چاہے اس نے کسی کلب میں قتل عام ہی کیوں نہ کیا ہو۔ لیکن ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ مسلم امہ اور طاقت ور مغربی دنیا میں وہی فرق ہے جو گاؤں کے چوہدری اور میراثی میں ہے، چوہدری کی ماں حج کرکے آئے تو پورا گاؤں مبارکباد دینے پہنچ جاتا ہے جبکہ میراثی کے گھر کوئی نہ جاتا۔
کالم کی دُم:مغربی ممالک ’’آج میرے پاس جگمگ کرتے شہر ہیں، جدید اسلحہ ہے، یونیورسٹیاں ہیں، سائنس دان ہیں، سپیس اسٹیشن ہیں، تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘
امت مسلمہ :’’ میرے پاس خادم حسین رضوی ہے‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے