کون کس سے لڑتا ہے؟

رام پنیانی‘ بھارت کے لائق احترام دانشور ہیں۔ ہندو مسلم تاریخ کو برصغیر کے پس منظر میں بہت دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ چند دن پہلے انہوں نے‘سینئر طلبا کو ایک لیکچر دیا۔ یہ لیکچر پیش خدمت ہے:
”ٹیپو سلطان پرحملے کے لئے مراٹھا فوج‘ جب شری رانگا پٹنم آئیںتو یہ لڑائی بغیر کسی فتح یا شکست کے اختتام پذیر ہوئی۔ مراٹھا فوج‘ ہندوئوںکی فوج تھی جبکہ ٹیپو سلطان مسلمان تھا۔ مراٹھا افواج جب جنگ میں فتح حاصل کئے بغیر واپس جا رہی تھیں تو خجالت مٹانے کے لئے انہوں نے‘ ٹیپو سلطان کی سلطنت کی حدود میں واقع‘ شری رانگا پٹنم کا مندر توڑ دیا جس کی مرمت ٹیپو سلطان نے کرائی۔ اس واقعے میں ہندو مراٹھا فوج نے مندر کو توڑ کر‘ کیا اپنے مذہب کو چوٹ پہنچائی تھی؟ یا انہوں نے ٹیپو سلطان کو نقصان پہنچایا تھا؟ ٹیپو سلطان نے اس مندر کو دوبارہ تعمیر کر کے‘ کیا ہندو مذہب کو طاقت فراہم کی تھی؟ یا اپنے علاقے میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا تھا؟ ایک طرف ہندو راجہ‘ دوسری طرف مسلمان راجہ۔ دونوں آپس میں لڑتے رہتے تھے۔
آج کل دہلی میں اکبر روڈ کا نام تبدیل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بادشاہ اکبر‘ غیر ملکی اور مسلمان تھا اور اس کا ہندوستانی تاریخ سے بطور ہندوستانی کوئی تعلق نہیں تھا‘ جبکہ مہارانا پرتاب ہمارے اپنے ہندو راجہ تھے۔ اس لئے اکبر روڈ کا نام تبدیل کر کے مہارانا پرتاب روڈ رکھا جائے۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ کیا مہارانا پرتاب اور بادشاہ اکبر کی لڑائی اپنی حکومت اور ریاست کے لئے تھی یا یہ ہندو مت اور اسلام کی جنگ تھی۔ بادشاہ اکبر اور رانا پرتاب کی لڑائی‘ ہلدی گھاٹی کے مقام پر لڑی گئی۔ ایک طرف بادشاہ اکبر کی فوج کھڑی تھی اور دوسری طرف رانا پرتاب کی۔ حیران کر دینے والی صورت حال یہ تھی کہ اکبر کی فوج میں بادشاہ خود موجود نہیں تھا اور فوج کی کمان راجہ مان سنگھ کے پاس تھی۔ یعنی بادشاہ کی غیر موجودگی میں اس کی جگہ‘ راجہ مان سنگھ‘ فوج کی کمان سنبھالے ہوئے تھا اور اس کے زیرِ کمان شہزادہ سلیم تھا۔ راجہ مان سنگھ‘ بادشاہ اکبر کے پردھان سینا پتی تھے۔ دوسری طرف رانا پرتاب کی فوج کی کمان کس کے پاس تھی؟ حکیم خان سور کے پاس۔ یعنی ایک طرف ہندو اور دوسری طرف مسلمان۔ تو کیا یہ ہندو مسلمان کی لڑائی ہے یا دو راجائوں کی لڑائی ہے؟ کیا یہ لڑائی مذہب کے لئے ہے؟ یا سچائی کے لئے؟ ہمارے پردھان منتری‘ جانے کیا کیا باتیں کرتے رہتے ہیں؟ کچھ دن پہلے وہ ممبئی آئے۔ چنائو کے لئے ووٹ لینے تھے۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ہمارے مہاراشٹرا‘ ممبئی میں ایک راجہ بہت مقبول ہیں‘ جن کا نام ہے شیوا جی۔ پردھان منتری نے ممبئی آکر‘ شیوا جی کی خوب تعریفیں کیں اور بتایا کہ انہوں نے اورنگ زیب کا خزانہ لوٹنے کے لئے سورت پر حملہ کیا۔ پردھان منتری کی یہ بات سن کر میں حیران رہ گیا۔ میں نے پھر سے تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔ آپ ہی بتائیے کہ اورنگ زیب کا خزانہ ‘دہلی میں تھا یا سورت میں تھا؟ شیوا جی مہاراج کی فوج ایک مرتبہ سورت پر حملہ کرنے جا رہی تھی۔ یہ وضاحت اس لئے کر رہا ہوں کہ وزیراعظم‘ تاریخی واقعات کو بالکل ہی الٹ کر بتا رہے ہیں۔ ہوا یہ تھا کہ جب شیوا جی مہاراج کی فوجیں سورت پر حملے کرنے جا رہی تھیں تو شیوا جی نے اپنی فوج کو تین ہدایات کی تھیں۔ یہ ہدایات کیا تھیں؟ آپ بھی پڑھیے: پہلا حکم کہ راستے میں حضرت بابا جیؒ کی درگاہ ہے۔ اس درگاہ کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہئے اور میری طرف سے حضرت باباؒ کی درگاہ کو نذرانہ پیش کرنا۔ دوسرا حکم: کسی صورت میں فادر پنٹو‘ ایک آشرم ہے‘ کو کوئی نقصان نہیں ہونا چاہئے۔ تیسرا حکم: جب آپ لوٹ مار کر رہے ہوں تو دوسرے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والی کتاب یا دیگر اشیا کی بے حرمتی مت کرنا۔ یہی شیوا جی مہاراج جنہیں آج ہندو دھرم کے نام پر اچھالا جاتا ہے‘ آپ کو بتا دوں کہ شیوا جی مہاراج کی فوج میں بارہ سینا پتی تھے‘ جو مسلمان تھے۔
اور تو اور‘ شیوا جی مہاراج کی ایک اور کہانی آپ کو بتاتا ہوں‘ جس سے آپ کو صورت حال مزید واضح ہو کر سمجھ آ جائے گی۔ ایک دفعہ شیوا جی گھوڑے پر بیٹھ کر جا رہے تھے کہ ان کے ایک جاسوس نے دیکھا کہ ان کی کمر میں تلوار نہیں ہے۔ وہ یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔ مہاراج سے کہا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ شیوا جی نے جواب دیا کہ میں افضل خان کو ملنے جا رہا ہوں۔ جاسوس نے پوچھا کہ آپ کی تلوار کہاں ہے؟ شیوا جی نے کہا ہے کہ میرے اور افضل خان کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوا ہے کہ جب ہم ملیں گے‘ ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہوگا۔ جواب سن کر شیوا جی کا جاسوس اور زیادہ پریشان ہو گیا اور شیوا جی سے کہنے لگا کہ گھوڑے سے نیچے اتریے۔ یہ سن کرمہاراج گھوڑے سے نیچے اتر آئے۔ جاسوس نے مہاراج سے کہا کہ آپ کا قد کتنا ہے؟ سوال سن کر شیوا جی مہاراج حیران رہ گئے۔ یہ جاسوس جو‘ ان کا باڈی گارڈ بھی تھا‘ شیوا جی کو بہت عزیز تھا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے سامنے کھڑا ہوں‘ درمیانے قد کا ہوں‘ پھر کیوں پوچھتے ہو؟ جاسوس نے سوال کیا کہ افضل خان کا قد کتنا ہے؟ شیوا جی نے کہا کہ افضل خان تو پٹھان ہے‘ چھ فٹ سے بھی لمبا ہے۔ جاسوس نے شیوا جی مہاراج سے کہا کہ افضل خان‘ جو آپ سے لمبا اور طاقتور بھی ہے۔ اگر آپ کے پاس ہتھیار نہ ہوا تو افضل خان آپ کو گلا گھونٹ کر قتل کر سکتا ہے۔ شیوا جی نے کہا کہ یہ بات تو درست ہے۔ جاسوس بولا‘ مہاراج! بھولے مت بنو۔ ایک خفیہ ہتھیار‘ واگ نکھ چھپا کر ساتھ لے جائیے۔ جس پر شیوا جی نے اپنے ہاتھ کی انگوٹھی کے نیچے‘ زہر کا ہتھیار چھپا لیا۔ جو بات عام طور پر بیان نہیں کی جاتی کہ وہ یہ کہ شیوا جی کے اس لاڈلے جاسوس کا نام کیا تھا؟ اس کا نام رستمِ زمان تھا۔ شیوا جی مہاراج کے 18 باڈی گارڈ تھے‘ جن میں12 مسلمان تھے۔ جب شیوا جی‘ افضل خان سے ملنے مقررہ جگہ پر پہنچے تو (بقول رام پنیانی) افضل خان نے شیوا جی کو ملتے ہی ان کی گردن کو دبوچ لیا، جس پر شیوا جی نے زہر کا چھپایا ہوا ہتھیار‘ افضل خان کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ زہر کے جسم میں جاتے ہی‘ افضل خان کی حالت غیر ہو گئی اور وہ مرنے کے قریب ہو گیا۔ یہ دیکھ کر افضل خان کے قریب ترین ساتھی نے شیوا جی پر حملہ کر دیا اور انہیں مارنے کی کوشش کی۔ افضل خان کے اس ساتھی کا نام تھا کرشنا جی بھاسکر کلکرنی۔ رستمِ زمان کس کے ساتھ ہے؟ شیوا جی کے ساتھ۔ اور کرشنا جی کس کے ساتھ ہے؟ افضل خان کے ساتھ۔ تو کیا یہ لڑائیاں ہندو مسلم مذاہب کے درمیان لڑی گئیں؟ یا یہ لڑائیاں راجائوں اور بادشاہوں کی جنگیں تھیں؟‘‘
(ترجمہ و بشکریہ:انیق ناجی)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے