علما ء و مشائخ سے ایک درخواست

اُس کے لہجے میں اتنا تکلیف دہ طنز تھا کہ تیر بن کر میرے سینے میں پیوست ہو گیا۔ یہ مغربی سفارتکار اکثر میرے ساتھ گلابی اُردو بولتا ہے۔ اُس نے بڑی تیزی کے ساتھ اُردو اخبارات بھی پڑھنا سیکھ لئے ہیں اور اب وہ میرے کالموں پر بھی تبصرے کا شوق پورا کرتا ہے۔ کل شام ایک سفارتی تقریب میں اُس سے ملاقات ہوئی تو آسمان سے بارش برس رہی تھی اور بادل بھی گرج رہے تھے۔ جب بھی بادل گرجتا تو یہ سفارتکار شرارتی لہجے میں کہتا مسٹر میر گھبرائو نہیں ابھی ٹرمپ نے حملہ نہیں کیا۔ وہ مجھ سے پیر حمید الدین سیالوی کا پس منظر پوچھ رہا تھا اور میں مختصر جواب کے ذریعہ اُس سے جان چھڑا رہا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ایسا کیا جرم کیا ہے کہ پیر حمید الدین سیالوی رانا صاحب کا استعفیٰ مانگنے لگے؟ کہیں یہ سب کسی کے اشارے پر تو نہیں ہو رہا؟ میں نے پوچھا کس کے اشارے پر تو سفارتکار نے قہقہہ لگایا اور پھر کہا میرا مطلب ہے کہیں یہ سب عمران خان تو نہیں کروا رہے، ہو سکتا ہے عمران خان نے پیر صاحب کے بیٹے کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا ہو۔ میں نے سفارتکار سے پوچھا کہ تم پاکستان کی سیاست میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہو؟ اُس نے جواب میں کہا کہ افسوس تمہارے ملک کی سیاست پیروں اور گدی نشینوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے یہ لوگ چوکوں اور چوراہوں پر گندی زبان استعمال کرتے ہیں، مخالفین پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں پھر ریاست ان کے سامنے سرنڈر کر دیتی ہے اور منتخب اراکین پارلیمنٹ اپنے استعفے ان کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں۔ تمہارا ملک تباہی کی طرف جا رہا ہے تم لوگ اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی بجائے ٹرمپ کو للکارنے میں مصروف ہو، تمہیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں تم اپنے دشمن خود ہو۔ یہ الفاظ سُن کر میں کچھ ٹھٹک گیا اور انگریزی میں کہا کہ جناب آج آپ بڑے غیر سفارتی انداز میں گفتگو کر رہے ہیں کہیں کل آپ پاکستان سے واپس تو نہیں جا رہے؟میرا جوابی طنز سُن کر اُس نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا کہ نہیں ایسی بات نہیں میں تو آپ کا خیرخواہ ہوں قائد اعظمؒ کے پاکستان کو پیروں اور مولویوں کے ہاتھوں میں جاتا دیکھ کر افسوس ہو رہا ہے اگر آپ کو میری باتیں اچھی نہیں لگیں تو میں معذرت خواہ ہوں۔ شدید بارش کے باعث میں نے اس تقریب سے روانگی کو کچھ موخر کیا اور اس سفارتکار کو ایک کونے میں لے گیا۔

کونے میں لے جا کر سفارتکار سے میں نے پوچھا کہ تم قائد اعظمؒ کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ اُس نے کہا کہ قائد اعظمؒ ایک لبرل اور سیکولر انسان تھے اُنہوں نے گیارہ اگست 1947ء کو اپنی تقریر میں جس پاکستان کا ذکر کیا تھا وہ پاکستان کہیں نظر نہیں آتا۔ میں نے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ پیر حمید الدین سیالوی کے بزرگ تحریک ِ پاکستان میں قائد اعظمؒ کے ساتھ تھے؟ سفارتکار نے حیرانگی سے کہا آپ مذاق تو نہیں کر رہے؟ قائد اعظمؒ کا ان پیروں سے کیا واسطہ تھا؟ میں نے اس پڑھے لکھے جاہل سے کہا کہ مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگانے والے مولویوں اور جعلی پیروں فقیروں کی میں حمایت نہیں کرتا پیر حمید الدین سیالوی کی طرف سے وزیر قانون کے استعفے کے مطالبے سے بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اُن کے بزرگ قمر الدین سیالوی سمیت برصغیر کے بہت سے علماء و مشائخ نے قائد اعظمؒ کی حمایت کی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کچھ لوگوں نے قائد اعظمؒ پر کفر کے فتوے لگائے لیکن کئی علماء نے قائد اعظمؒ اور مسلم لیگ کے حق میں فتوے بھی دیئے۔ قائد اعظمؒ کا کمال یہ تھا کہ وہ ٹھیک اُردو نہ بول سکتے تھے لیکن وہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کو ساتھ لے کر چلے۔ 1946ء میں اسلامیہ کالج لاہور کے میدان میں ایک علماء کانفرنس ہوئی جس میں پیر قمر الدین سیالوی کے علاوہ مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ابراہیم سیالکوٹی، سیّد محمد علی، حافظ کفایت حسین اور مولانا عبدالحامد بدایونی سمیت بہت سے بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ علماء نے شرکت کی اور قائد اعظمؒ کی حمایت کا اعلان کیا۔ پیر جماعت علی شاہ صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج آگ اور پانی اکٹھے ہو گئے یہ خدا کی شان ہے اب کوئی معجزہ رونما ہو گا اور ایک سال کے بعد پاکستان بن گیا۔ یہ قائد اعظمؒ کا کمال تھا کہ ایک دیوبندی مولانا شبیر احمد عثمانی کی صدارت میں پیر جماعت علی شاہ جیسے بریلوی نے تقریر کی اور شیعہ عالم دین حافظ کفایت حسین نے اہل حدیث بزرگ مولانا ابراہیم سیالکوٹی کی طرف دیکھ کر سبحان اللہ سبحان اللہ کہا۔ میری باتیں سُن کر سفارتکار کے لہجے کا طنز بجھ چکا تھا۔ اُس نے پوچھا یہ سب مکاتب فکر احمدیوں کو مسلمان کیوں تسلیم نہیں کرتے اور قائد اعظمؒ کے پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم کیوں قرار دیا گیا؟

میں نے اس سفارتکار کو دعوت دی کہ وہ کوئی مناسب وقت طے کر کے میرے گھر آئے اور میں کچھ دستاویزات اور کتابوں کی مدد سے اپنا موقف پیش کروں۔ اُس نے پوچھا آپ مجھے کیا دکھانا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا آپ کے لئے تحریک پاکستان کے زمانے میں مسلم لیگ کی طرف سے شائع کئے گئے کچھ اشتہارات اور بعض علماء و مشائخ کے فتوے دیکھنا بہت ضروری ہے جو قائد اعظمؒ کی حمایت میں جاری کئے گئے۔ سجادہ نشین آستانہ عالیہ اجمیر شریف، گلبرگہ شریف دکن، تونسہ شریف، پاک پتن شریف، سیال شریف، سجادہ نشین گولڑہ شریف، علی پور شریف سیالکوٹ، جلال پور شریف، سجادہ نشین سلطان باہو جھنگ، سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ گورداسپور، چورہ شریف اٹک، پیر غلام مجدد سرہندی اور پیر صاحب زکوڑی شریف اور مانکی شریف سے لے کر بہت سے علماء و مشائخ نے قائد اعظمؒ کی حمایت کی۔ پیر صاحب گولڑہ شریف، پیر قمر الدین سیالوی اور مولانا عبدالحامد بدایونی کا احمدیوں کے بارے میں نقطہ نظر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے 1936ء میں اس سوال پر بحث شروع کی کہ احمدیوں کو اسمبلی کے ذریعہ غیر مسلم قرار دلوایا جائے یا نہیں لیکن اس زمانے میں مسلم لیگ کا اصل مقصد پاکستان کا حصول تھا۔ سر ظفر اللہ خان مسلم لیگ میں شامل رہے۔ یہ معاملہ 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے بڑے جمہوری انداز میں طے کر دیا۔ اس طے شدہ معاملے کو بار بار چھیڑنا اور متنازع بنانا احمدیوں کے حق میں ہے نہ پاکستان کے حق میں۔ آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے کچھ حامیوں کا اس معاملے میں رویہ غیرآئینی اور غیر جمہوری ہے۔ آئین اور جمہوریت کے لئے ذوالفقار علی بھٹو سے بڑی قربانی کسی نے نہیں دی۔ 1974ءمیں ختم نبوت کی تحریک کے دوران ہفت روزہ چٹان کے ایڈیٹر آغا شورش کاشمیری اپنے دوست مولانا تاج محمود کے ہمراہ وزیر اعظم بھٹو کو ملے اور روتے ہوئے بھٹو کے پائوں پکڑ کر کہا میں آپ کے سامنے جھولی پھیلاتا ہوں میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ کر دیں اسے میری نہیں بلکہ فاطمہ بنت محمدؐ کی جھولی سمجھ لیجئے۔ بھٹو صاحب نے یہ مسئلہ جذباتی انداز میں حل کرنے کی بجائے آئینی و جمہوری راستہ اختیار کیا اور مسئلہ طے کر دیا لہٰذا آپ لوگ اس حساس مسئلے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔ سفارتکار نے پوچھا یہ شورش صاحب کون تھے؟ میں نے بتایا بھٹو حکومت کے بہت بڑے نقاد تھے اور شاعر بھی تھے ختم نبوت کا معاملہ طے ہونے کے بعد اُنہوں نے بھٹو صاحب کی شان میں ایک نظم بھی کہی۔ سفارتکار نے کہا وہ نظم سنائو۔ نظم مجھے یاد نہ تھی۔

آج صبح کلیات شورش کاشمیری میں سے یہ نظم ڈھونڈ کر میں نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعہ سفارتکار کو بھجوا دی ہے۔ کچھ شعر آپ بھی پڑھیے؎
از بس کہ ذوالفقار علی بے نیام ہے
خنجر بکف ہے، قافلہ سالار زندہ باد
بھٹو کا نام زندہ جاوید ہو گیا
شورش شکست کھا گئے اشرار زندہ باد
آخر میں علماء و مشائخ سے درخواست ہے آج اُسی اتحاد کا مظاہرہ کریں جس کی جھلک تحریک پاکستان میں نظر آئی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے