اپنی خیر منائیں

ایک سوال تواتر سے پوچھا جاتا ہے :آنے والے مہینوں میں پاکستان کی خستہ حال جمہوریت سے کیا توقع رکھی جائے ؟ اس کے کئی جوابات ہوسکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ سب کے سب درست ہوں۔ آئیے ہم بھی اس کا ایک جواب دیتے ہیں۔ توقع ہے کہ زور زبردستی کرنے والے نمایاں ترین توجہ حاصل کریں گے۔ قومی سیاست میں مرکزی حیثیت معقولیت کی بجائے طاقت کو حاصل ہوگی ۔ آنے والے دنوں میں یہی سکہ رائج الوقت ہوگا۔

تاہم پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہونے جارہا ۔ ملکی تاریخ کے بیتے ماہ وسال دھونس کی سیاست کے گواہ ہیں۔ گلیوں اور سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے افراتفری پھیلانے اور حکومتی نظام میں تبدیلی لانے والے اہم ترین عامل رہے ہیں ۔1954 ء میں لاہور کا پہلا مارشل لا دراصل ایک ریہرسل تھی ۔ ماضی میں فوج اور عدلیہ بڑے تال میل سے عوام کو باور کراتے رہے کہ اس ملک کو معمول کے مطابق نہیں چلایا جاسکتا۔ لہٰذااس کے لیے خصوصی بندوبست درکارہے ، جیسا کہ فوجی حکومتیں، کٹھ پتلی سویلین انتظامیہ، دھاندلی زدہ انتخابات اور درآمدکیے گئے نابغے ،جیسا کہ معین قریشی اور شوکت عزیز۔

اس پس ِ منظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ داداگیری سیاسی واقعا ت کے اوّل و آخر دیکھنے میں آئے گی۔ اس منہ زور طوفان کی زد میں آنے والے مختلف انجام سے دوچار ہوں گے۔ کسی کو پھانسی ملے گی، کوئی ہلاک کردیا جائے گا، کسی کو سیاسی میدان سے ہمیشہ کے لیے دیس نکالا مل جائے گا۔ کم شدت کا دھکا صرف حکومت ، عہدے اور استحقاق سے محرومی کی صورت ہوگا(میرے ذہن میں غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری آرہے ہیں جو ظالم سے مظلوم بن گئے تھے )۔ تاہم ماضی کے برعکس آج کی دھونس اور دھمکی کی سیاست نے بے پناہ وسعت اور ہمہ گیریت اختیار کرلی ہے ۔ اب اس کا ہدف افراد یا مخصوص گروہ نہیں۔ اس کے اہداف بہت وسیع ہیں، جو کہ عام شہریوں سے لے کر غیر جانبدار گروہوں، پیشہ ور ماہرین اور ریاستی اداروں تک پھیلے ہیں۔ کوئی بھی اس جارحیت کی زدمیں آسکتا ہے ۔ کسی کے لیے مفر ممکن نہیں۔ جسمانی طاقت کی سیاست کو حاصل ہونے والی وسعت ایک منفرد پیش رفت ہے ۔ یہ تازہ ترین ٹکسال ہے ۔ اور آنے والے دنوں میں اس کا مزیدپھیلائو خارج ازامکان نہیں۔

ایسی ہی زور زبردستی کی تازہ ترین مثال فیض آباد دھرنا تھا۔ ممکن ہے کہ آپ اس مخصوص واقعے کی کچھ تفصیل بھول گئے ہوں، چنانچہ یادداشت تازہ کرنے میں کیا حرج ہے ،دہرا ئے دیتا ہوں۔ زور زبردستی والوں نے پنجاب اور وفاق کے درمیا ن اہم ترین مقام کو چار ہفتوں کے لیے بند کردیا۔ اُنھوںنے عملی طور پر دونوں شہروں کے درمیان ’’نو گو ایریا ‘‘ قائم کرلیا ۔ ریاست کو ایک ہیجانی کیفیت میں دھکیل دیا۔ صرف یہی نہیں، بازو کی طاقت سے ریاست اور حکومت کی تمام سرگرمیاںمفلوج کردی گئیں ۔ اس دھونس کے نتیجے میں کئی افراد کی جان گئی ، افراتفری پھیلی، سرکاری اور نجی املاک کو اربوں روپوں کا نقصان پہنچا۔ جب یہ دنگا فساد مچا ہوا تھا تو وہ حکومت کے مساوی لاکھڑے کئے گئے۔ اسی ملک کے آرمی چیف نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ تشدد کی بجائے پر امن طریقے سے مسائل کا حل نکالے ۔ آخر میں ایک توہین آمیز معاہدے کو عظیم کامیابی قرار دے کر لہرا یاگیا۔

فسادبپا ہونے سے پہلے اس زور زبردستی کرنے والوں کی گالیوں سے کوئی بھی محفوظ نہ تھا ۔ ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے سو ا اُنھوں نے ہر کسی کو ایک قطار میں کھڑا کیا ہوا تھا ۔ لائوڈ سپیکرز ہوں یا سوشل میڈیا، اُن کا توپ خانہ ملک کے کونے کونے تک گالیاں پھیلا رہا تھا ۔ حاضر سروس جج حضرات، سیاست دان، صحافی اورمختلف مذہبی اور مسلکی تنظیموں کے نمائندوں کو نام لے کر ننگی گالیاں دی جارہی تھیں۔ حقیقی دھونس دھمکی سے کام لیا گیا۔ قانون کو کھلا چیلنج دیا اور جیت گئے ۔ عام شہریوں کو زدوکوب کیا اور سزا سے بچ گئے ۔ ملک کی رہی سہی ساکھ کومٹی میں ملادیا اور ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے ۔ علاقائی سیکورٹی جیسے حساس موضوع پر ہونے والی بحث کو یرغمال بنا لیا ، خوف پھیلایا، عوام کو ریاست کی لاچارگی کا احساس دلایا، اور انعام میں اُن کی پیٹھ تھپکی گئی ، مسکراہٹ بھری آنکھو ں نے اُن کااستقبال کیا ۔

نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا کوئی خصوصی اجلاس نہ بلایا گیا۔ انتہا پسندی کو روکنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی روح کے منافی سرگرمیوں پر کوئی غور نہ ہوا۔ کسی نے بھی بحث نہ کی کہ اس گروہ اوراس کی سرگرمیوں نے کس طرح آپریشن رد الفساد کا بھرم چاک کرکے رکھ دیا ۔ حکومت بے جان تھی۔ اس کی نمائندگی کرنے والے وزیر ِاعظم ، خاقان عباسی سکوت کے مظہر، ’’جیسے تصویر لگادے کوئی دیوار کے ساتھ‘‘ ۔ فساد سے نمٹنے کی تمام ذمہ داری گفتار کے غازی، پروفیسر احسن اقبال کو سونپ دی گئی۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کا کہنا تھا کہ پاکستان کوئی بنانا ریپبلک نہیں ۔ اس آپریشن نے وزیر ِداخلہ کی مذکورہ شہرت کو مزید چار چاند لگائے۔ ایک ہجوم کے خلاف دنیا کے ناقص ترین پولیس ایکشن کی قیادت نے موصوف کی انتظامی صلاحیتوں کی بابت بہت سوں کی غلط فہمی دور کردی۔ پنجاب کے وزیر ِاعلیٰ ، جن کی بوکھلائی ہوئی انتظامیہ نے اس بپھرے ہوئے ہجوم کو پنجاب سے اٹھ کر اسلام آباد تک آنے کا موقع دیا تھا ، نے بھی وہی کیا جو اسلام آباد میں ہوا تھا اور لاہور دھرنے والوں سے ایک شرمناک معاہدہ کر لیا۔

اس دوران روز مرہ کے مسافروں کی جان اذیت میں تھی۔ بزنس کو اربوں کا نقصان پہنچ رہاتھا۔ا سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند تھیں۔ شادی کی طے شدہ تاریخیں نکل رہی تھیں۔ دور ِ جدید میں چشم فلک نے اتنے جبر اور ایک ریاست کے شہریوں کی بے بسی کا ایسا مظاہرہ نہیں دیکھا ہوگا۔ غیر ملکی قبضے یا عشروں سے خانہ جنگی کی شکار یا قدرتی آفات سے تباہ شدہ ریاستوں میں ہی شہری ایسے حالات سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ کسی معمول کی ریاست میں اس قہر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے باوجود کسی کی پیشانی شکن آلود نہ ہوئی ۔ ہوسکتا ہے کہ مزید چند ایک ہفتے یہی صورت ِحال رہتی اگر جیمز میٹس کو پاکستان کا دورہ نہ کرنا ہوتا۔ اُس اہم مہمان کی آمد کے موقع پر پاکستان کواپنے صحن کی صفائی کرنی تھی ۔

آئی ایس آئی کی رپورٹ ، جس کا سپریم کورٹ کے دورکنی بنچ نے حوالہ دیا ، کہتی ہے کہ یہ دھرنا سیاسی مقاصد کے لیے تھا۔کورٹ آرڈر انٹیلی جنس کے تجزیے کو اس طرح بیان کرتا ہے ۔۔۔’’تحریک ِ لبیک اس صورت ِحال سے فائدہ اٹھانے اور اگلے عام انتخابات کی تیاری اور اپنا سیاسی حلقہ وسیع کرنے کے لیے پرعزم ہے ۔ ‘‘اس پر فاضل جج صاحبا ن نے نتیجہ نکالا ، ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ احتجاجی مظاہرین کوئی سیاسی ایجنڈا رکھتے تھے ۔‘‘

اس واقعہ کی حقیقت یہی تھی ۔ یہ ایک سیاسی حربہ تھا جس کے ذریعے سیاسی فائدہ اٹھانا مقصود تھا ۔ یہ مفاد اب سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس گروپ کا نام ہر گھر تک پہنچ چکا ہے ۔ ان کا نام مذہبی ہے مگر ایجنڈا سیاسی ہے۔ پنجاب کی کم و بیش 39000 رجسٹرڈ مساجد (انتہائی مقبول اور متمول مزارات ان کے علاوہ ہیں)کے حلقہ اثر اور ہم خیال مسالک کے تعاون سے یہ تحریک قومی سیاست میں اپنی حیثیت منوا سکتی ہے ۔ یہ مسلکی بنیادوں پر جذبات کو ابھار تے ہوئے تاجر حلقوں، عام شہریوں، سرکاری ملازموں، مزدور طبقوں اور وکلا اور صحافیوں کو حکمران جماعت سے برگشتہ کرسکتی ہے ۔ چنانچہ یہ اُن جماعتوں کے ساتھ ڈیل کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی جو پنجاب میں فیصلہ کن سیاسی جنگ لڑنے جارہی ہیں۔پنجاب میں سیاسی تنائو کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ تحریک کسی قسم کے بادشاہ گر کا کردار ادا کرسکتی ہے ۔ بلاشبہ اس گروہ نے ملک کی ہنگامہ خیز صورت ِحال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ سیاسی مقاصد حاصل کیے ۔ اس کامیابی کو دیکھتے ہوئے اب دیگر تنظیمیں بھی دھونس دھمکی کی راہ اپنائیں گی ۔ طاہرالقادری(جو دھرنے کی سیاست کے سرخیل ہیں) کی مارکیٹ میں واپسی اس کی ایک مثال ہے۔ جلالی کے مطالبات کی فہرست بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔

لیکن شدت پسند سیاست کرنے والوں کے عزائم یا منصوبے خود بخود ہی ساکھ حاصل نہیں کرتے۔ اُنہیں سرپرستی درکار ہوتی ہے ۔ ملک کی کون سی طاقت اتنی دیدہ دلیری سے ایسے کھیل کھیل سکتی ہے ؟ کو ن اہم ترین شاہرائوں کو بند کرکے ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتا ہے ؟اب جسمانی طاقت رکھنے والے مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہورہے ہیں۔ ان کی آمد وقتی نہیں ۔ وہ یہاں ٹھہرنے کے لیے آئے ہیں۔ یہ درست کہ مرکزی دھارے میں آنا اور مرکزی دھارے کو دھمکانا دو مختلف باتیں ہیں۔ مرکزی دھارے میں آنے کے بعد ایسے گروہ خود کو اجتماعیت کے تابع کردیتے ہیں۔ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ یہاں اجتماعیت کو جسمانی طاقت رکھنے والوں کے تابع کیا جائے گا۔ ان کی آمد سے یہ ریاست اور اس کے ادارے ایک مذاق بن جائیں گے ۔ ان گروہوں کے رہنما ریاست کی عملداری تسلیم نہیں کرتے ۔ اُنہیں آئین کی سربلندی سے بھی کوئی سروکار نہیں۔ اُنہیں اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق سے کوئی غرض نہیں۔ اس کے باوجود وہ پھول پھل رہے ہیں۔

فرقہ پرست گروہوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں لانے کے منفی پہلو اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ تصور بہت لذیذ محسوس ہوکہ مسلکی گروہ تمام سرکاری مشینری کو مفلوج کرسکتے ہیں۔ لیکن اس ڈنگ سے پھیلنے والا زہر کسی ایک جسد تک محدود نہیں رہے گا۔ ایسے گروہ کھیپ درکھیپ تیار ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی نمو نہایت سرعت سے ہوتی ہے ۔ آج ایک ہے ، کل ایک درجن ہوں گے ۔ اس کے بعد اُنہیں سرپرستوں کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ وہ ایسے فتنے جگائیں گے کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے ۔ اس کے بعد اُن کے مسلکی مخالفین کی طرف سے ردعمل آئے گا۔ وہ بھی ان کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیر رہے ہیں۔ لیکن اب شاید ان خدشات کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں رہا۔ ہم دھونس دھمکی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ آنے والے مہینوں میں انہی کا جادو سرچڑھ کر بولے گا۔ انہی کی کرنسی چلے گی، اوریہ تمام دسترخوان انہی کا ہوگا۔ پس چہ باید کرد ؟ اب آپ بھی کوئی طاقت کرائے پر حاصل کرلیں، یا جیب اجازت دیتی ہے تو خرید لیں۔ بلکہ بہتر ہے کہ خود بھی کمر کس کر میدان میں آجائیں ۔ خم ٹھونک کر نعرہ لگائیں۔ آپ کی خیر نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے