اس کا ذمے دار کون ہے؟

آپ اورنج لائین ٹرین کی مثال لے لیجیے‘ پنجاب حکومت نے چین کی مدد سے 25 اکتوبر 2015ء کو لاہور میں یہ منصوبہ شروع کیا‘ یہ 27 کلو میٹر لمبی ٹرین سروس تھی‘ یہ سروس 25 کلو میٹر پلوں کے ذریعے زمین سے اوپر چلنی تھی اور یہ تقریباً پونے دو کلو میٹر زیر زمین ٹنلز میں بننی تھی‘ منصوبے کی لاگت 164 ارب روپے تھی‘ یہ منصوبہ شروع ہوا‘ سول سوسائٹی سامنے آئی‘ احتجاج ہوا‘ مظاہرین لاہور ہائی کورٹ گئے اور ہائی کورٹ نے 28 جنوری 2016ء کو پنجاب حکومت کے خلاف سٹے آرڈر جاری کر دیا۔

ہائی کورٹ نے حکم دیا حکومت تاریخی عمارتوں سے دو سو فٹ کی حدود میں کام بند کر دے‘ عدالت کے حکم کے بعد شالا مار باغ‘ گلابی باغ‘ بدو کا آوا‘ چوبرجی‘ زیب النساء کا مقبرہ‘ لکشمی بلڈنگ‘ جی پی او‘ ایوان اوقاف‘ سپریم کورٹ رجسٹری بلڈنگ‘ سینٹ اینڈریو چرچ اور موج دریار دربار پر کام بند ہو گیا تاہم حکومت سٹے سے قبل ان تمام مقامات پر کھدائیاں شروع کر چکی تھی۔ سڑکیں توڑی جا چکی تھیں‘ ستون کھڑے کیے جا چکے تھے اور ٹنلز کے لیے زمین میں سوراخ ہو چکے تھے‘ عدالتی حکم کے بعد یہ کام رک گیا۔

مقدمہ چلنے لگا‘ ہائی کورٹ نے 19 اگست 2016ء کو پنجاب حکومت کے خلاف حتمی فیصلہ بھی دے دیا‘ حکومت نے 13 اکتوبر 2016ء کو ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا‘ سپریم کورٹ نے پانچ رکنی بینچ بنایا‘ سماعتیں شروع ہوئیں‘ وکیل آتے اور جاتے رہے اور دلائل دیے اور لیے جاتے رہے یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے 17 اپریل 2017ء کو فیصلہ محفوظ کر دیا‘ یہ فیصلہ 8 دسمبر 2017ء تک محفوظ رہا۔
سپریم کورٹ نے 8 دسمبر کو پنجاب حکومت کو اورنج ٹرین لائین ٹرین مکمل کرنے کی اجازت دے دی تاہم ٹرین چلنے کے بعد تھرتھراہٹ چیک کرنے کے لیے کمیٹی بنا دی گئی یوں انصاف کا یہ عمل 22 ماہ جاری رہا‘ ان 22 ماہ میں منصوبے کی کاسٹ 164 ارب روپے سے 260 ارب تک ہو گئی۔ وہ ہزاروں لوگ جن کے گھروں اور دکانوں کے راستے کھدے ہوئے تھے‘ وہ 22 ماہ تک ذلیل ہوتے رہے‘ لوگوں کے اربوں روپے کے کاروبار تباہ ہوگئے‘ سیکڑوں چھوٹے بڑے حادثے ہوئے اور ان حادثوں میں بے شمار لوگ جان سے گزر گئے۔

لاہور شہر میں 22 ماہ پولوشن بھی پھیلتا رہا‘ یہ پولوشن بھی ہزاروں لوگوں کو بیمار کر گیا‘ یہ منصوبہ 2017ء میں مکمل ہونا تھا‘ یہ اب 2018ء تک چلا جائے گا‘ ریاست کو اس تاخیر کی کاسٹ بھی برداشت کرنا پڑے گی ‘ سپریم کورٹ نے 17 اپریل کو فیصلہ محفوظ کیا تھا‘ یہ فیصلہ سات ماہ محفوظ رہا‘ ان سات ماہ کے دوران حکومت کا دو کروڑ روپے روزانہ نقصان ہوتا رہااور حکومت چینی کمپنیوں کو اس نقصان کے علاوہ دس ارب روپے اضافی بھی ادا کرے گی۔

میں ادب کے ساتھ یہ پوچھنا چاہتا ہوں اس تاخیر‘ اس نقصان کا ذمے دار کون ہے؟ کیا یہ عوامی منصوبہ نہیں تھا؟ کیا یہ رقم غریب عوام کی امانت نہیں تھی اور کیا پاکستان دنیا کا پہلا ملک تھا جس میں اس نوعیت کا منصوبہ شروع ہوا؟ دنیا کے پچاس ملکوں کے 148 شہروں میں زیر زمین ٹرینیں چلتی ہیں‘ ٹرینوں کے ٹریک دو دو سو فٹ زمین کے نیچے بچھے ہیں‘ زمین کے اوپر پورے کے پورے شہر آباد ہیں اور نیچے ٹرینیں چل رہی ہیں۔

یہ ٹریک آج سے سو سال پہلے اس وقت بنائے گئے جب ٹیکنالوجی ننگے پاؤں چل رہی تھی‘ لندن میں 1863ء میں زیر زمین ریلوے سسٹم بنایا گیا اور یہ پیرس میں 1900ء میں بنا‘ یہ دونوں شہر لاہور سے قدیم بھی ہیں اور یہ ہمارے مقابلے میں ہزار گناہ زیادہ ’’ثقافتی اثاثے‘‘ بھی ہیں لیکن وہاں کوئی سٹے آرڈر جاری ہوااور نہ ہی یہ منصوبے 22 ماہ تک لٹکے رہے‘ لاہور میں چند اسٹیشنوں کا ایشو تھا‘ ٹیکنالوجی ماضی کے مقابلے میں ہزار گناہ بہتر تھی۔

لندن اور پیرس کی ٹرینیں نوے فیصد زمین کے اندر چلتی ہیں‘ لاہور کی اورنج لائین ٹرین کا نوے فیصد حصہ زمین سے اوپر تھا لیکن ہم نے ان حقائق کے باوجود یہ منصوبہ 22 ماہ روکے رکھا‘ کیوں؟ ہم چند لمحوں کے لیے یہ کیوں بھی سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں اور ہم یہ فرض کر لیتے ہیں اورنج لائین ٹرین منصوبے میں عدالتوں کا اطمینان ضروری تھا لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے جو فیصلہ 22 ماہ میں ہوا کیا وہ دو ماہ میں ممکن نہیں تھا؟ ہم نے سات ماہ تک فیصلہ کیوں محفوظ رکھا؟ یہ فیصلہ اگر اپریل میں آ جاتا تو کیا حرج تھا؟ اس تاخیر کا کس کو فائدہ ہوا اور کس کو نقصان ہوا؟

میں دل سے سمجھتا ہوں ہمارے سیاسی اور عسکری نظام کی طرح ہمارے عدالتی نظام کو بھی اصلاح کی ضرورت ہے‘ ریاست کو بہرحال ترقیاتی منصوبوں اور عوامی فلاح کے پراجیکٹس کو عام عدالتی نظام سے الگ کرنا ہو گا‘ ہمیں اس کے لیے الگ ٹریبونل بھی بنانا ہوگا‘ ٹریبونل سے سٹے آرڈر کا استحقاق بھی لینا ہوگا اور ٹریبونل کو فیصلوں کے لیے ٹائم فریم کا پابند بھی کرنا ہوگا ورنہ یہ سسٹم اور یہ ملک نہیں چل سکے گا۔

آپ کو یاد ہوگا جسٹس افتخار محمد چوہدری نے2006ء میں اسٹیل مل پر سوموٹو نوٹس لے لیا تھا‘ شوکت عزیز حکومت21 ارب68 کروڑ روپے میں اسٹیل مل فروخت کرنا چاہتی تھی‘ سودے میں زمین اور دوسری تنصیبات شامل نہیں تھیں‘ سپریم کورٹ نے سودا منسوخ کرا دیا‘ ریاست اب تک اسٹیل مل پر 164 ارب روپے خرچ کر چکی ہے لیکن اسٹیل مل اس کے باوجود چل نہیں رہی‘ مل کے قرضے بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں‘یہ مل اگر 2006ء میں فروخت ہو جاتی تو کم از کم 164 ارب روپے تو بچ جاتے۔

آپ دیکھ لیجیے گا ہم یہ مل بھی ضرور فروخت کریں گے لیکن ہم اس وقت تک اس پر 500 ارب روپے خرچ کر چکے ہوں گے‘ ہمیں اس کا ایک دھیلا بھی نہیں ملے گا‘ ہم اسے کباڑیوں کے ہاتھوں بیچیں گے اور کباڑ اٹھانے والوں کو معاوضہ بھی دیں گے‘ آپ اسی طرح ریکوڈک کی مثال بھی لے لیجیے‘ افتخار محمد چوہدری نے یہ منصوبہ 7 جنوری 2013ء میں رکوا دیا۔

ریاست اب تک اس پر 250 ارب روپے خرچ کر چکی ہے لیکن ہم ابھی تک سونے کے ان ذخائر تک نہیں پہنچے جنہوں نے قوم کا مقدر بدلنا تھا‘ ہم نے اسی طرح 2012ء میں عدالتی حکم پر ترکی کے رینٹل پاور پلانٹ ’’کارکے‘‘ کا معاہدہ منسوخ کر دیا‘ کارکے عالمی عدالت انصاف میں چلی گئی‘ عالمی عدالت نے پاکستان کو 830 ملین ڈالر کا جرمانہ ٹھونک دیا‘ اب یہ نوے ارب روپے کون ادا کرے گا؟ اور کراچی میں اب عدالتی حکم پر عمارتیں گرائی جا رہی ہیں‘ یہ عمارتیں کن کی ملکیت ہیں اور اس کا نقصان کس کو ہوگا؟

آپ یقین کیجیے سیکڑوں لوگ ایک عدالتی فیصلے پر ایک رات میں فٹ پاتھ پر آگئے۔یہ درست ہے کراچی میں پانی کا شدید بحران ہے لیکن یہ بحران پورے عرب امارات‘ پورے یونان‘ پورے لیبیا اور پورے جاپان میں ہے لیکن کیا وہاں عمارتیں گرائی جا رہی ہیں؟ ایمسٹرڈیم شہر کا ایک تہائی حصہ سمندر پر بنا ہے‘ یہ فلوٹنگ ہے لیکن وہاں عمارتیں بنانے پر کوئی پابندی نہیں‘ کیوں؟

میری سپریم کورٹ سے درخواست ہے آپ عمارتیں گرانے یا ہاؤسنگ اسکیموں پر پابندی لگانے کے بجائے تمام ڈویلپرز کو حکم دیں یہ اسکیم بنانے سے پہلے سمندر کے کھارے پانی کو استعمال کے قابل بنانے کے پلانٹ لگائیں اور یہ ہر فلیٹ‘ ہر گھر میں واش روم اور واش بیسن کی لائنیں بھی الگ الگ لگائیں‘ یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا‘ آپ عمارتوں کو گرانے اور تعمیر پر پابندی کے بجائے اسی طرح ہاؤسنگ اسکیموں کے مالکان اور حکومت کو سمندری پانی کو استعمال کے قابل بنانے کا حکم بھی دیں۔

ہمیں بیرونی سرمایہ کاری‘ انٹرنیشنل کمپنیوں اور ملک کا ملکوں کے ساتھ معاہدوں کے معاملے میں بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا‘ ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا ،کیا ہمیں ترقیاتی منصوبے چاہئیں‘ کیا ملک میں سڑکیں‘ پل‘ انڈر پاسز‘ اوورہیڈ برج‘ میٹروز اور ٹرینیں ہونی چاہئیں اور ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کیا ائیر لائینز‘ اسٹیل ملز اور فیکٹریاں چلانا حکومت کا کام ہے اور ہم کب تک عوام کا پیٹ کاٹ کر قومی سرمایہ اسٹیل مل‘ پی آئی اے اور ریلوے جیسے جہنموں میں جھونکتے رہیں گے؟ ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا ہم کب تک ایل ڈی اے‘ سی ڈی اے اور کے ڈی اے جیسے سفید ہاتھی پالتے رہیں گے۔

ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کیا ہمیں واقعی بیرونی سرمایہ کاری‘ بیرونی کمپنیاں اور بیرونی ایکسپرٹس کی ضرورت ہے اور ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کیا سرکار کی املاک واقعی سرکار کی ہیں‘ ریاست کی سڑکیں واقعی ریاست کی ہیں یا پھر یہ کسی دشمن ملک کی ملکیت ہیں‘ ہم جس دن یہ فیصلہ کر لیں گے ہم اس دن زیادہ بہتر فیصلوں کے قابل ہو جائیں گے‘ ہم اس دن وکلاء کے ہاتھوں سے ملتان جوڈیشل کمپلیکس کے شیشے‘ دروازے اور کھڑکیاں بھی بچا لیں گے اور ہم اس دن اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی کی مرکزی شاہراہوں کو بھی دھرنے بازوں سے محفوظ بنا لیں گے۔

آپ یقین کیجیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس دن واشنگٹن میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا اسلام آباد کے شہری اس دن گھروں میں بیٹھے بیٹھے سہم گئے تھے‘ لوگوں کا خیال تھا ہماری قوم اب بیت المقدس کا مقدمہ اسلام آباد کی سڑکوں پر لڑے گی‘ یہ اپنے راستے‘ اپنی سرکاری املاک اور اپنی گاڑیوں کو نقصان پہنچا کر صدر ٹرمپ کو سبق سکھائیں گے‘ ہم نے جس دن اپنی سڑکوں کو اپنی سڑکیں اور سرکاری املاک کو اپنی املاک سمجھ لیا ہم اس دن اپنے لیے اچھے فیصلے کر لیں گے ورنہ دوسری صورت میں ہم اسی طرح اپنے منہ پر تھپڑ مار کر دوسروں سے انتقام لیتے رہیں گے‘ ہم اپنے منصوبوں کی کاسٹ بڑھا کر اپنے شملے اونچے کرتے رہیں گے اور عوام اسی طرح ایک دوسرے سے پوچھتے رہیں گے ’’اس کا ذمے دار کون ہے؟‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے