ہوش مندی کا کوئی نعم البدل نہیں

مسئلہ القدس کا ہے۔ حمیت و غیرت کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ مذمت اور لعن طعن کی آوازیں چہار سو ہیں۔ میرا موقف، تیرا موقف،سعودی اور اماراتی موقف، ترکی و قطری موقف،ایرانی و پاکستانی موقف ۔تائید، تعریف،تحسین اور تبراء سے فضا آلودہ ہے۔ سب کچھ ہے بس القدس کی بات نہیں ہے!!

کیا بات کریں؟ سننے کا حوصلہ ہے؟ آبگینے ہی آبگینے ہیں، اپنے بھی اور بیگانے بھی، ذرا سا سچ بولیں تو ناراضگی، طعنے اور غصہ در آتا ہے۔دوستوں کا مسلسل تقاضا ہے کہ اس پر کچھ کہا جائے،سو کچھ لکھ رہے ہیں۔

ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ سب کو پتا تھا کہ وہ ایسا کرے گا۔ ہوش کم اور جوش زیادہ ہو تو یہی کچھ ہوتا ہے۔ امریکی صدر کو اختیار ہے اور امریکی سپریم کورٹ کے 2015 کے فیصلے Zivotofsky v. Kerry کے بعد سب کا یہی تجزیہ تھا کہ ٹرمپ جیسا صدر ایسا ہی کرے گا۔ سو وہی ہوا۔ امریکیوں کے ہاں قانون وہ ہے جسے وہ قانون مانیں اور سمجھیں، باقی جو کچھ ہے وہ صرف امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے لئے اکیڈیمک مواد سے زیادہ کچھ نہیں۔

سعودی! جی ہاں اس سارے معاملے میں بادی النظر میں سب کچھ ان کے علم میں لاکر کیا گیا ہے۔ مانیں گے وہ کبھی نہیں اور ویسے بھی مانتا کون ہے، سو وہ بھی مان کر نہیں دیں گے۔ اوبامہ کے ڈسے ہوئے سعودی پوری طرح ٹرمپ کے سامنے صرف اس شرط پر ڈھیر ہوچکے ہیں کہ کم از کم قبل از اوبامہ دور کی مشرق وسطی ٰپالیسی بحال کی جائے گی۔ سو ان کی ساری بیان بازی اصل میں رنگ بازی ہے۔ آپ تبراء کریں، تنقید کریں یا پھر تعریف ، وہ اپنی پالیسی پر یکسو ہیں۔ امریکیوں کو ٹف ٹائم دینے کا جو سبق ان کو یار لوگوں نے پڑھایا تھا اس کے نتائج وہ بھگت کر آئے ہیں اور اب کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ تائب ہوچکے ہیں۔ اپنے راحیل شریف صاحب بھی ساتھ ہی ہیں سو اندازہ کرلیں کہ اور کون کون سعودیوں کے ساتھ ہے۔

ترکی کی جے ہو کہ بڑا تگڑا موقف اختیار کیا ہے۔ اردغان کی حکومت ہے تو ترکی کی سرحدوں کے اندر مقید مگر مسلم دنیا کے سوشل میڈیا کا سربراہ بھی اردغان ہی ہے۔ مختلف زبانوں میں جاری سوشل میڈیا صفحات اردغان کی شخصیت اور کرشماتی بدن بولی کو دنیا بھر میں اجاگر کرتے ہیں۔ امت، غیرت، حمیت اور نشاة ثانیہ کے خواب آنکھوں میں سجائے کروڑوں لوگوں کو لگتا ہے کہ اردغان ان کے لئے امید کی کرن ہے۔

ترکی میں اوپر تلے کانفرنسوں کی یلغار آئی ہوئی ہے۔ وہاں جوق در جوق وفد جارہے ہیں اور واپسی پر خواب آنکھوں میں سجائے واپس آتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پہاڑ کی چوٹی سے گھوڑے پر سوار سلطان امت کے غموں کا مداوا کرنے کے لئے تلوار لہراتے ہوئے ابھی کہ ابھی آیا۔

مگر اس سلطان نے نہیں آنا۔ یہ سلطان اور اس کے حواری بھی اپنے مفادات کی نگہبانی میں مشغول ہیں۔ اردغان کے ترکی کے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ تعلقات اردغان نے شروع نہیں کیے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بظاہر ساری تلخی و تندی کے ساتھ یہ تعلقات آج بھی پوری طرح استوار ہیں۔ اردغان کے دور اقتدار میں ترکی اور اسرائیل کی باہمی تجارت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ ترکی اسرائیل کو فوجی استعمال کے لئے بوٹ اور دستانے فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے۔ انگریزی میں اسے کہتے ہیں گیلری سے پلے کرنا، سو یہی کام جاری ہے۔ ایک ملک میں ڈھٹائی کے ساتھ اور دوسرے ملک میں بے شرمی سے!! بس اتنا ہی فرق ہے۔ باقی ملکوں کا بھی تقریبا یہی حال ہے۔ قطر اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی بھی کوئی مختلف نہیں۔ امارات بھی اس حمام میں ننگا ہے ۔۔۔۔۔!

سو اگر آپ کسی بھی ایک سائیڈ پر کھڑے ہوکر سراًیا جہراًتبرا کا ارتکاب کر رہے ہیں تو ایک منٹ کے لئے رک جائیں اور آس پاس نظر دوڑا لیں کہ آپ کا اپنا ممدوح کیا کر رہا ہے!

بہتر یہ ہے کہ مان لیں کہ دنیا نیشن اسٹیٹ کی تقسیم کا شکار ہوچکی ہے۔ یہاں ہر ملک کے اپنے مفادات ہیں۔ مفادات کے اس کھیل میں ہوش مندی کا کوئی نعم البدل نہیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے