‘عمران خان اور نواز شریف کے کیس کا موازنہ کرنا ناممکن’

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما میاں محمود الرشید نے واضح کیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے مقدمے کا موزانہ کرنا حقیقت میں ممکن ہی نہیں۔

محمود الرشید کا کہنا تھا کہ عمران خان کبھی بھی وزارتِ عظمی پر فائز نہیں رہے اور نہ کوئی سرکاری عہدہ سنبھالا، لہذا ان پر اس طرح کی کرپشن کی بات کرنا نامناسب ہے، جس کا ذکر پاناما کیس میں شریف خاندان سے متعلق کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل جسٹس فیصل عرب نے فیصلے کے ساتھ ایک اضافی نوٹ تحریر کیا ہے جو دونوں مقدمات میں فرق سے متعلق ہے۔

ان کا کہنا تھا ‘ہم سمجھتے ہیں کہ اس کیس میں ہماری فتح ہوئی ہے، کیونکہ عمران خان نے از خود اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا تھا اور کئی سازشوں کے باوجود آج وہ واحد قومی رہنما کے طور پر سامنے آئے، جنہیں عدالت نے صادق اور آمین قرار دیا’۔

جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق بات کرتے ہوئے محمود الرشید کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر نااہل کیا ہے، مگر ہم اپیل کا حق رکھتے ہیں، لہذا ہم اس کے لیے پھر عدالت جائیں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ جب تک اس کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آجاتا، اس وقت تک یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا کس چیز کو بنیاد بنا کر جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا گیا۔

خیال رہے کہ 15 دسمبر 2017 کو سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے پی ٹی آئی چیئر مین عمران خان اور پارٹی رہنما جہانگیر ترین کی نااہلی اور تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔

عدالتی فیصلے میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف پٹیشن کو خارج کردیا جبکہ جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دے دیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی غیر ملکی فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو بھجوا دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ملکی فنڈنگ کیس سے متعلق اکاونٹس کی باریک بینی سے جائزہ لے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلے میں کہا تھا کہ عمران خان پر 2013 کے کاغذاتِ نامزدگی میں نیازی سروسز لمیٹڈ کو ظاہر نہ کرنے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ وہ اس کے اسٹیک ہولڈر نہیں تھے اور انہوں نے تمام متعلقہ دستاویزات پیش کیں جبکہ بنی گالہ کے اثاثے عمران خان نے اپنے خاندان کے لیے خریدے تھے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اور رکنِ قومی اسمبلی جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دے دیا تھا۔

جہانگیر ترین پر زرعی آمدن، آف شور کمپنیوں، برطانیہ میں جائیداد اور اسٹاک ایکسچینج میں اِن سائڈ ٹریڈنگ سے متعلق الزامات تھے۔

سپریم کورٹ کے بینج نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جہانگیر ترین صادق اور امین نہیں رہے اور عدالت عظمیٰ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کو ان کے خلاف ان سائیڈ ٹریڈنگ سے متعلق کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے دونوں رہنماؤں کے خلاف نااہلی کیس کا فیصلہ 14 نومبر کو محفوظ کیا تھا، جسے 15 دسمبر 2017 کو 3 بجے سنا دیا گیا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے عمران خان اور جہانگیر ترین نااہلی کیس میں فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

جسٹس ثاقب نثار نے کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کے ’فریقین کے جانب سے پیش کیے گئے دلائل کا ہر طرح سے جائزہ لیں گے، جس کے بعد ایسا فیصلہ سنائیں گے جو سب کو قابل قبول ہوگا۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے