سیاستدان……اک اور امتحان

جیسے سورج نصف النہار کے بعد ڈھلتے ڈھلتے بتدریج معدوم ہوتے ہوتے اندھیرے میں تحلیل ہوجاتا ہے، نواز شریف کا سیاسی سورج بھی اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ رفتگاں کی طرف رواں دواں ہے۔ چالیس گاڑیوں کا قافلہ بھی سیاسی چالیسویں سے بچا نہیں سکتا جس کے بعد پہلی، دوسری، تیسری برسی علی ہذالقیاس؎رہ گیا مشتاق دل میں رنگِ یادِ رفتگاںپھول مہنگے ہوگئے قبریں پرانی ہوگئیںآئندہ الیکشن (؟)میں بری طرح زخمی ن لیگ کو صابر و شاکر شہباز شریف لیڈ کرے گا اور دوسری طرف صادق اور امین عمران خان کا طوفان المعروف سونامی ہوگا۔ عمران کے صادق اور امین ہونے میں تو پہلے بھی کسی کو کوئی شک نہ تھا لیکن اب تو وہ’’سرٹیفائیڈ‘‘ صادق ا ور امین ہے تو ذرا سوچئے صورتحال کیسی ہوگی؟ کریلا اوپر سے نیم چڑھا، سونے پر عدالتی سہاگہ، تلوار دو دھار ہوجانے کے بعد کشتوں کے پشتے لگائے گی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ رن گھمسان کا نہ ہوگا۔

ن لیگ’’نیم کش‘‘ قسم کی کیفیت میں مبتلا ہوگی کیونکہ ’’داغ‘‘ صرف ٹی وی ا شتہاروں میں ہی اچھے ہوتے ہیں۔ بدنامی کا داغ تو بہت ہی بد ہوتا ہے جسے مٹانے کے لئے کوئی ڈیٹرجنٹ ایجاد نہیں ہوا۔ رہی سہی کسر ختم نبوت سے بے وفائی کا تاثر یعنی شہباز شریف کو منیر نیازی جیسی سچوئشن کا سامنا ہوگا کہ ایک دریا کے بعد دوسرا بپھرا دریا منتظر۔ پیپلز پارٹی کے پارٹ ٹائم کردار پر وقت ضائع کرنے اور امکانی اتحادوں پر غور کرنے سے کہیں زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ الیکشن(؟)کے بعد والے منظر نامہ پر توجہ دی جائے۔ آپ جتنا سوچیں گے اتنا ہی الجھتے چلے جائیں گے۔جو دو تین امکانی کومبی نیشنز بنتے ہیں، بنا کر دیکھ لیں، باٹم لائن یا گرینڈ ٹوٹل تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔ ٹوٹل کنفیوژن،ٹیڑھے میڑھے ناہموار رستے، ایک کے بعد دوسرا بھنور اور ایک ایسی ناہموار، ائیر پاکٹس کی زد میں آئی فلائٹ جس کے دوران سیٹ بیلٹ کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی اور مسافروں کی جان پر بنی رہتی ہے۔ مسافر کا تعلق بھلے کسی بھی کلاس سے کیوں نہ ہو۔اس اندرونی گھمبیرتا میں بیرونی و خارجی عوامل بھی شامل کرلیں تو چشم تصور مزید چندھیا جاتی ہے لیکن فی الحال خود کو اپنے اندرونی امکانات تک ہی محدود رکھتے ہیں کہ اندرون سکون دور دور تک دکھائی نہیں دیتا اور اس کی سب سے بڑی فیصلہ کن وجہ ہمارا یہ انا اور انتقام کا مارا ہوا’’سیاسی میٹریل ‘‘ ہے جسے کسی’’میثاق جمہوریت‘‘ نہیں’’میثاق انسانیت‘‘ کی ضرورت ہے۔انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ آپ گدھے، گھوڑے، اونٹ یا خچر کو دریا تک تو لے جاسکتے ہیں لیکن پانی بہرحال اسے خود ہی پینا پڑتا ہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ کہ ہماری اس سیاسی اشرافیہ کو خود ہی کچھ سوچنا اور کرنا ہوگا ورنہ سانپ سیڑھی کا یہ کھیل کسی نہ کسی صورت میں یونہی چلتارہے گا۔ انہیں اپنے بنیادی اسلوب، ادب و آداب اور طریقہ ہائے واردات پر ازسر نو غور کرنا ہوگا، حدود و قیود کا نئے سرے سے تعین کرنا ہوگا۔’’ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے‘‘”He who stands at the head of the line must know where he is going”.انہیں یہی علم نہیں ہوتا کہ جانا کہاں ہے؟ان کے نزدیک الیکشن جیتنا ، اقتدارمیں آنا اور اسے ہر قیمت پر قائم رکھنا ہی سیاست اور قیادت کی انتہا اور آخری منزل ہے، سو ان کی ساری زندگیاں اسی تگ و دو چھینا جھپٹی میں بسر ہوجاتی ہیں اور قوم دائرے کے سفر کی بدنصیب قیدی جو ہر چند سال کے بعد خود کو اس برگد کے نیچے پاتی ہے جہاں سے چلی تھی۔’’اوقات‘‘ہی اتنی ہو تو کوئی کرے بھی کیا”It is extremely difficult to lead farther than you have gone yourself”.اس ملک کے سیاستدان کے لئے اگلا الیکشن (؟)اک اور ایسا امتحان جس میں یہ کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے