سالانہ چھ سے سات لاکھ غیرقانونی تارکین وطن لیبیاکارخ کرتے ہیں

پاکستان میں لیبیا کے سفیرنظار احمد نبیحہ نے غیر قانونی تارکین وطن کو مستقل سکونت دینے کے عالمی طاقتوں کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ سالانہ چھ سے سات لاکھ غیرقانونی تارکین وطن لیبیاکارخ کرتے ہیں،لیبیا سے اٹلی جاتے روزانہ دس سے پندرہ لاشیں ملتی ہیں یورپ چاہتا ہے پندرہ لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو لیبیا اپنے پاس مستقل پناہ دے دے جوکہ ممکن نہیں ہے سی این این نے دو سمگلر گروہوں کے درمیان انسانوں کی خرید و فروخت کا الزام لیبیا حکومت پر لگا کر صحافتی بددیانتی کی ہم پر انسانی غلامی کا الزام لگانے والوں نے پانچ سو سال انسانوں کو غلاموں کے طورپر خریدایورپ انسانوں کی تجارت کا مرکز رہا پندرہ سے بیس ہزارپاکستانی لیبیا میں قانونی طریقے سے ملازمت کررہے ہیں

ان خیالات کااظہارانہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا نظاراحمدنبیحہ نے لیبیا پر انسانی سمگلنگ اور غلامی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے انسانی سمگلنگ کے بے بنیادالزام کے خلاف پاکستان سے مدد مانگ لی ہے انہوں نے کہاکہ لیبیا کے عوام پاکستان کواپنادوسراگھرسمجھتے ہیں پاکستان نے ہمیشہ لیبیاکے ساتھ تعاون کیاہے دونوں ممالک کے تعلقات پہلے کی طرح مستحکم اورمضبوط ہیں اوروقت کے ساتھ ساتھ ان تعلقات میں نہ صرف بہتری آرہی ہے بلکہ مضبوط سے مضبوط ہوتے جارہے ہیں چنددن قبل سی این این نے ایک جعلی رپورٹ بناکریہ دعوی کیاہے کہ لیبیا میں انسانوں کوغلام بناکرخریدوفروخت کیاجاتاہے جس سے یہ رپورٹ من گھڑت اوربے بنیادتھی جس کاحقیقت حال سے کوئی تعلق نہیں تھالیبیاکی حکومت نے اس رپورٹ کی بھرپورتردیدکی ہے بلکہ الزامات کی تحقیقات کے لئے آزاد کمیشن بنا دیا جواپنی تحقیقات مکمل کر کے اس حوالے سے حقائق منظرعام پرلائے گا لیبیاکی حکومت کے پاس اس بات کے ثبوت کے موجود ہیں کہ انسانی سمگلنگ اورتارکین وطن کی غیرقانونی نقل وحرکت میں انٹرنیشل گروہ ملوث ہیں جس میں تیونس ،اٹلی اورکچھ افریقی ممالک کے گروہ شامل ہیں اوریہ گروہ نامساعدحالات اورلیبیاکی جغرافیای صورتحال کافائدہ اٹھا کر اس طرح کے غیرقانونی کام کررہے ہیں،

لیبیا میں مختلف ملکوں سے سالانہ لاکھوں غیر قانونی تارکین ِ وطن پہنچ رہے ہیں جو بحری راستوں کے ذریعے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِ سوقت ڈیڑھ ملین سے زائد غیر قانونی تارکین وطن لیبیا میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیںلیبیا کے مخدوش حالات کے باعث انسانی سمگلروں نے اِسے گزرگاہ بنا لیا ہے۔ اِس وقت دنیا بھر میں لیبیا واحد ملک ہے جو غیر قانونی تارکین وطن کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ چھ ہزار کلومیٹر سرحداور اڑھائی ہزار کلومیٹر کے ساحل کو تارکین وطن سے محفوظ نہیں بنا سکتے لیبیا کی فوج اور فضائیہ ختم کردی گئی ہے اسلحہ رکھنا منع کردیا گیا ہے اتنی بڑی سرحد کو فضائیہ کی مدد کے بغیر کیسے روکیں غیر قانونی تارکین وطن کو عالمی گروہ دہشتگردی منشیات اورسمگلنگ کے لئے استعمال کررہے ہیں لیبیاکی حکومت اقوام متحدہ کے قوانین اورافریہ کے چارٹرانسانی حقوق کی مکمل پاسداری کررہی ہے جن ممالک سے یہ غیرقانونی تارکین وطن آرہے ہیں ان سے بھی ہم نے متعددبارر ابطہ کرکے کہاہے کہ وہ ان تارکین وطن کوروکنے میں اپناکرداراداکریں اوراپنے اپنے ممالک میں روزگارکے ذرائع پیداکریں اس سلسلے میں یورپی ممالک ان کی مددکریں

انہوں نے کہاکہ یورپ کے کچھ ممالک ہم پردبائوڈ ال رہے ہیں کہ ہم غیرقانونی تارکین وطن کومستقل ٹھکانہ دیں جوکہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے پندرہ لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو لیبیا میں مستقل نہیں رکھ سکتے یورپ نے غلام انسانوں سے بیگار لے کر صنعتی ترقی حاصل کی اور اسے روکنے کے قوانین بنا دیئے لیبیا افریقی ممالک کے لوگ یورپ جانے کے لیے ٹرانزٹ کیمپ کے طورپر استعمال کرتے ہیں انہوں نے کہاکہ لیبیاکی حکومت نامساعدحالات کے باوجود اس پرتیارہے کہ تارکین وطن کوواپس اپنے ممالک میں بھیجنے کے لیے عارضی طورپرشیلٹرقائم کیے جائیں جس میں وہ اپنی واپسی تک رہے سکیں یورپ غیر قانونی تارکین وطن کے لیے شیلٹرز بنانے میں مدد کرے پاکستان اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں میں لیبیا کی مدد کرے انہوں نے کہاکہ 2006ء سے لیبیا مسائل کاشکارہے اورغیرقانونی تارکین وطن کادبائوبڑھتاجارہاہے

ہم نے متعددباراقوام عالم سے اپیل کی ہے کہ لیبیاان مسائل سے اکیلے نہیں نمٹ سکتا اس معاملے میں عالمی برادری خصوصا یورپی ممالک اورجن ممالک سے یہ افرادآتے وہ ممالک ہمارے ساتھ تعاون کریں تاکہ ایسے اقدامات کاسدباب کیاجاسکے ۔لیبیا کو انسانی سمگلنگ میں ملوث کئے جانے کے مغربی الزامات کو یکسر مسترد کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان مہاجرین،غیر قانونی تارکین وطن جن کی عمریں 30سے35سال کے درمیان ہیں کو واپس ان کے ملکوں کو بھیجا جائے۔سفیر کا کہناتھا کہ عالمی طاقتون کی جانب سے ان غیر قانونی تارکین وطن کو لیبیا میں ہی مستقل سکونت دینے کو کوششوں کی ہر ممکن مزاحمت کی جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے