آرمی چیف کی بریفنگ، کیا سیاسی بے یقینی ختم ہو سکے گی؟

پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کے ایوان بالا کے ارکان کو یقین دلایا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فیض آباد دھرنے کے پیچھے فوج کا ہاتھ تھا کہ تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نہال ہاشمی نے منگل کو سینیٹ کے ان کیمرہ اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فوج کے سربراہ نے یہ بات سوال و جواب کے سیشن کے دوران سینیٹر مشاہد اللہ خان کے سوال کے جواب میں کہی۔ پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ فوج آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے گی اور حکومت فوج کو جو بھی حکم دے گی اس پر من و عن عمل ہوگا.

https://www.youtube.com/watch?v=xST7w7E-OOU

نہال ہاشمی کے مطابق مشاہد اللہ خان نے آرمی چیف سے سوال پوچھا کہ اسلام آباد میں دھرنا دینے والوں کو کھانا کون سپلائی کرتا تھا جس پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے جواب دیا کہ اگر یہ ثابت ہو جائے ان دھرنوں کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ آرمی چیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اُنھوں نے انٹر سروسز انٹیلیجنس کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ اس دھرنے کو ختم کرے۔ اُنھوں نے کہا کہ دھرنے والوں کے چار مطالبات تھے لیکن وہ وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کرنے لگے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے اگلے روز بھی وزیر اعظم کے ہمراہ سعودی عرب جانا تھا اس لیے وہ چاہتے تھے کہ سعودی عرب روانگی سے پہلے اس دھرنے کوختم کروایا جائے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی تنظیم تحریک لبیک یا رسول اللہ کا دھرنا رواں ماہ کے آغاز میں حکومت اوراس تنظیم کے درمیان چھ نکاتی معاہدے کے بعد ختم ہوا تھا اور پاکستانی فوج نے یہ معاہدہ کروانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

سینیٹر نہال ہاشمی نے حکمراں جماعت کے ہی سینیٹر پرویز رشید کی طرف سے فوج کی طرف سے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی سرپرستی کے بارے میں بھی سوال کیا جس کا آرمی چیف نے نفی میں جواب دیا کہ فوج حافظ سعید کی سرپرستی نہیں کر رہی۔
ذرائع کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ حافظ سعید بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اتنے ہی سرگرم ہیں جتنا ایک عام پاکستانی۔

[pullquote]جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ حکومت جو بھی خارجہ یا دفاع سے متعلق پالیسی بنائے گی فوج اس کے ساتھ ہو گی۔[/pullquote]

اُنھوں نے کہا کہ فوج آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے گی اور حکومت فوج کو جو بھی حکم دے گی اس پر من و عن عمل ہوگا۔ اجلاس کے دوران سینیٹ کے ارکان نے یقین دلانا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور ملکی سلامتی کے لیے سویلین اور فوجی ادارے ایک ہی پیج پر ہیں اور اگر ملک کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ لڑے گی۔

[pullquote]کیا سیاسی بے یقینی ختم ہو سکے گی؟[/pullquote]

آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے ملک کے ایوانِ بالا میں حاضری دی اور اراکین سینیٹ کی طرف سے پوچھے گئے تمام طرح کے سوالات کے جوابات دیے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ فوجی سربراہ نے ایوان بالا میں حاضری دی۔آرمی چیف کی بریفنگ کے بعد ملک میں کئی حلقے یہ خیال کر رہے ہیں کہ اس سے جمہوریت مستحکم ہوگی، سیاسی عدم استحکام کم ہوگا اور سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان تعاون بڑھے گا۔ یہ اجلاس سینیٹ کی پوری کمیٹی کا تھا۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین رضا ربانی نے کی جب کہ وائس چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے آرمی چیف کا استقبال کیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نوید مختار، ڈی جی ایم اوساحر شمشاد مرزا اور دیگر عسکری حکام بھی بریفنگ میں موجود تھے۔

[pullquote]
کیا پاکستان میں جمہوریت تباہی سے دوچار ہو سکتی ہے؟[/pullquote]

آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تمام سوالات میرٹ پر کیے گئے۔ تمام سینیٹرز نے آرمی چیف کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔ ڈی جی ایم او نے جیو پولیٹکل صورتِحال پر بریفنگ دی۔ آرمی چیف نے ایک گھنٹے بریفنگ دی اور اس کے بعد تین گھنٹے سوالات ہوئے۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ پاکستان کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے مل جل کر کام کریں گے۔ خطے میں سکیورٹی کے حوالے سے سینیٹرز پوری طرح واقف تھے۔ سکیورٹی صورتِ حال پر پاک فوج کی تعریف کی گئی۔ تمام سینیٹرز کو خطرات سے آگاہ کیا گیا اور ان سے نمٹنے کا لائحہ عمل بھی بتایا گیا۔

اس بریفنگ کے چند نکات کا تذکرہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عبدالغفور نے ذرائع ابلاغ کے سامنے کیا۔ تاہم سینیٹر نہال ہاشمی نے اس اجلاس کے کچھ نکات میڈیا کو بتائے، جو کئی تجزیہ نگاروں کے لیے حیران کن تھے۔ نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے کہا کہ ملک میں صدارتی نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس سے ملک کمزور ہوتا ہے۔ جو ریٹائرڈ فوجی افسران ٹی وی پر تبصرے کرتے ہیں وہ فوج کے ترجمان نہیں۔ نہال ہاشمی نے کہا کہ آرمی چیف نے دھرنے والوں سے لا تعلقی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ آرمی کا دھرنوں سے کوئی تعلق تھا تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔

پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ آرمی چیف نے ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے بھی باتیں کیں۔ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان لڑائی نہیں ہوگی اور پاکستان ایسا نہیں ہونے دے گا۔ اکتالیس ملکو ں کا اتحاد کسی کے خلاف نہیں اور اس کے ٹی او آرز بھی ابھی تک طے نہیں ہوئے ہیں۔ فوجی سربراہ کے مطابق پارلیمنٹ دفاع اور خارجہ پالیسی بنائے، فوج اس پر عمل کرے گی۔

کئی سینیٹرز نے اس مسئلے پر بات کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ ان کیمرہ بریفنگ ہے اور وہ اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتے ۔ تاہم سب کا یہ خیال تھا کہ یہ جمہوریت کے لیے اچھا ہے کہ آرمی چیف نے ایوانِ بالا میں بریفنگ دی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر کبیر شاہی نے کہا، ’’کیونکہ یہ ان کیمرہ بریفنگ تھی تو میں اس حوالے سے آپ کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ تاہم میں یہ کہہ سکتا ہوں کے سینیٹرز نے ہر طرح کے سوالات کیے اور ان پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ ایوان میں حاضری تقریباﹰ پوری تھی۔ میرے خیال میں ان کی بریفنگ ملک کے لیے اور دنیا کے لیے بھی ایک اچھا پیغام ہے۔ اس سے ملک میں جمہوریت مضبوط ہوگی اور اداروں کے درمیان تعاون بھی بڑگے گا۔‘‘

معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے اس بریفنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’میرے خیال میں اس بریفنگ کی وجہ سے ملک میں پائی جانے والی سیاسی غیر یقینی کا کسی حد تک خاتمہ ہوگا۔ آرمی چیف ذاتی طور پر جمہوریت پسند ہیں اور ایسے کوئی اشارے ان کی طرف سے کبھی نہیں ملے ہیں کہ وہ اس نظام سے خوش نہیں ہیں۔ تاہم ملک کے کچھ سیاسی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی جوڑ توڑ میں ملوث ہے۔ دھرنوں میں اس کا ہاتھ ہے۔ وہ سینیٹ کے انتخابات نہیں چاہتی۔ وہ قبل از وقت انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے اور وہ یہ نہیں چاہتی کہ نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آئیں۔ تو اس طرح کے تاثر کو ختم کرنا ہوگا۔ میرے خیال میں آج کی بریفنگ سیاست دانوں کے لیے ایک یقین دہانی ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں۔ سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ نہیں ہوگی اورجمہوریت چلے گی۔ اگر یہ سب کچھ ہوتا ہے تو پھر یقیناً اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے پھیلائے جانے والے تاثر کی نفی ہوگی۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے