مجھ سے میراسوچنےکاحق مت چھینو

آپ کا حق ہے جو موقف رکھیں کیونکہ اس کے بارے میں آپ کے پاس جواز اور وجہ موجود ہوگی بالکل اسی طرح دوسرے شخص کے پاس بھی اپنے موقف کے لیے جواز اور وجہ موجود ہوتی ہے ۔

اگر آپ کو کسی کے موقف سے اختلاف یا اتفاق ہے تو زیادہ بہتر صورت یہ ہے کہ اسے جا کر اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھیں ۔

دوسرے کے گھر میں داخل ہو کر غلیظ گالیاں لکھنا ، فقرے کسنا ، نیتوں پر حملہ آور ہونا شریف لوگوں کا کام نہیں ۔

ایسا ممکن ہی نہیں کہ ہم سب ایک جیسا سوچیں یا ہم سب کا نکتہ نظر کسی باب بالکل ایک جیسا ہو۔

ہر شخص کا اپنا پس منظر ہے ۔ اپنی تعلیم اور تجربہ ہے ۔ اپنا ذہن اور اپنی سوچ ہے ۔ اس کو خدا نے اس کے اعمال اور ارادوں کے ساتھ اٹھانا اور روز حشر اس کا حساب کرکے اپنا فیصلہ کرنا ہے ۔ حساب کرنا اور نیتوں کے بارے میں فیصلہ کرنا خدا کا اختیار ہے جو اس نے مجھے دیا ہے اور نا آپ کو ۔

میں کسی کو کیا سمجھتا ہوں ، یہ میری مرضی اور میری رائے ہے ، جس طرح آپ کی مرضی یا آپ کی رائے ہے ۔ اگر آپ طاقت، دھونس دھاندلی کی بنیاد پر مجھ سے میری سوچ اور رائے چھیننے کی کوشش کریں گے تو پھر اس طرح بھارت ، برما اور فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا جا رہا ہے ، وہ بھی درست سمجھا جائے گا کیونکہ وہ بھی طاقت ، دھونس اور دھاندلی کے ذریعے ہی یہ سب کر رہے ہیں جو آپ کر رہے ہیں ۔

یاد رکھیں

جس چیز کا حق مجھے خدا نے دیا ہے وہ آپ مجھ سے چھین نہیں سکتے کیونکہ مجھ سے یہ حق چھین کر آپ خدا کی سکیم ، اس کے وجود اور اس کی تعلیمات کا انکار کر رہے ہیں ۔

اس لیے میرے وہ دوست جنہیں میرے خیالات سے اتفاق نہیں ، یا میری باتوں سے ان کی عقیدت کے مراکز پر زد پڑتی ہے ، ان سے گذارش ہے کہ وہ مجھے ان فرینڈ کردیں ، نہ پڑھیں ۔

یہ باتیں ایک سطحی انسان کے دماغ میں بھی آ سکتی ہیں کہ ووٹ اور ریموٹ کا استعمال اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ جس کو پسند کرتا ہے ، اسے دیکھتا بھی ہے ، اسے ووٹ بھی دیتا ہے ۔ اور جو فقط ٹوہ میں لگا رہتا ہے کہ فلاں کیا لکھ رہا ہے یا کہہ رہا ہے ، وہ خود کو مسلسل ایک عذاب میں لگائے رکھتا ہے ۔ ان کے بارے میں ہی کہا گیا تھا کہ موتو بغیظکم

یہاں میں چیزیں آپ کے لیے نہیں ، بلکہ اپنے خاص دوستوں اور اپنے کھتارسسز کے لیے لکھتا ہوں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے