حضرت عیسٰی بن مریم علیہما السلام کا تذکرہ قرآن و حدیث میں

ہر سال ۲۵ دسمبر کو مسیحی مذہب کے پیروکار کرسمس مناتے ہیں جو ان میں سے اکثر کے بقول سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ ولادت ہے۔ چنانچہ مسیحیوں کے مذہبی حلقے اسے ’’عید میلاد المسیح‘‘ کا نام دیتے ہیں جبکہ عمومی مسیحی حلقے اسے ایک قومی دن کے طور پر پوری دنیا میں جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ دن بھرپور انداز میں منایا جاتا ہے اور مسیحی مذہب کے پیروکار مختلف تقریبات اور پروگراموں کے ذریعے حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس حوالے سے آج ہم سیدنا حضرت عیسٰیؑ کی ذات بابرکات کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کا اسلامی تعلیمات کے حوالے سے اظہار کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قرآن و حدیث میں حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں بیسیوں مقامات پر بکھرے ہوئے تذکروں میں سے چند ایک کا ذکر کریں گے۔

سیدنا حضرت عیسٰیؑ کے بارے میں اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں، ان کی والدہ محترمہ حضرت مریمؑ پاک باز خاتون تھیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت سے معجزے کے طور پر بغیر باپ کے پیدا کیا اور نبوت اور رسالت سے نوازا۔ حضرت عیسٰیؑ بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر تھے، انہیں چار بڑی آسمانی کتابوں میں سے ایک کتاب انجیل دی گئی۔ یہودیوں نے دشمنی میں انہیں قتل کرنا چاہا مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا۔ انہیں ابھی تک موت نہیں آئی اور نہ وہ سولی پر چڑھائے گئے بلکہ وہ اسی دنیوی حیات کے ساتھ آسمانوں پر موجود ہیں، قیامت سے پہلے دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے، دجال اکبر کا مقابلہ کر کے اسے شکست دیں گے اور اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کریں گے۔ مسلمانوں کے اس وقت کے امیر حضرت امام مہدی کے ساتھ مل کر دنیا میں پھر سے آسمانی تعلیمات کی حکمرانی، جسے مسلمانوں کی اصطلاح میں خلافت کہا جاتا ہے، قائم کریں گے۔ حضرت عیسٰیؑ کچھ عرصہ حیات رہیں گے، ان کی شادی ہوگی، بچے ہوں گے اور پھر وہ وفات پائیں گے جس کے بعد انہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر میں سپرد خاک کر دیا جائے گا جہاں آنحضرتؐ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی تین قبروں کے ساتھ ایک قبر کی خالی جگہ موجود ہے اور اسے حضرت عیسٰیؑ کی قبر کے لیے مخصوص رکھا گیا ہے۔

قرآن کریم میں مختلف مقامات پر حضرت مریمؑ اور حضرت عیسٰیؑ کا تذکرہ موجود ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

سورہ البقرہ کی آیت ۸۷ اور آیت ۲۵۳ میں ارشاد خداوندی ہے کہ ہم نے حضرت موسٰیؑ کو کتاب (توراۃ) دی اور ان کے بعد لگاتار نبی بھیجے اور حضرت عیسٰیؑ کو ہم نے کھلے معجزات دیے اور روح القدس کے ساتھ ان کی مدد کی۔

سورہ آل عمران کی آیت ۳۵ تا آیت ۶۰ میں حضرت مریمؑ کی ولادت و پرورش اور پھر اس کے بعد حضرت عیسٰیؑ کی ولادت و نبوت کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: حضرت مریمؑ کی والدہ محترمہ نے نذر مانی کے اے اللہ! میرے پیٹ میں جو بچہ ہے میں اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کرتی ہوں۔ مگر جب بچہ پیدا ہوا تو وہ لڑکی (مریم) تھی، ان کی والدہ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ یہ تو بچی ہے میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے آپ کی پناہ میں دیتی ہوں اور اس کی اولاد کو بھی مردود شیطان کے شر سے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نذر قبول کر لی اور اسے اچھی پرورش کے ساتھ بڑھایا جبکہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اس بچی کی کفالت کا۔

فرشتوں نے حضرت مریمؑ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے چن لیا اور پاکیزگی بخشی ہے اور تجھے جہانوں کی عورتوں میں سے چنا ہے اس لیے تم اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور اس کے لیے رکوع اور سجدہ کرو۔ پھر فرشتوں نے حضرت مریمؑ کو خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ تجھے اپنے کلمہ کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام مسیح اور عیسیٰ بن مریم ہوگا، وہ دنیا و آخرت میں باوقار ہوگا، اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا، ماں کی گود میں اور پختہ عمر میں یکساں کلام کرے گا اور نیکوکاروں میں سے ہوگا۔ حضرت مریمؑ نے کہا کہ مجھے تو ابھی تک کسی مرد نے چھوا تک نہیں، میرا بیٹا کیسے پیدا ہوگا؟ فرشتوں نے کہا کہ اسی کیفیت میں ہوگا، اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو صرف اتنا کہہ دیتے ہیں کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اسے کتاب و حکمت اور توراۃ و انجیل کی تعلیم دے گا اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا۔

حضرت عیسٰیؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں لے کر آیا ہوں، میں مٹی سے پرندے کا مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اڑنے لگتا ہے، میں مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے تندرست بنا دیتا ہوں، میں مردے کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ کرتا ہوں، جو کھانا تم کھاتے ہو اور جو گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دے سکتا ہوں، میں اپنے سے پہلی کتاب توراۃ کی تصدیق کرنے والا ہوں، بعض چیزیں جو تم پر پہلے حرام کی گئی تھیں انہیں حلال کرنے آیا ہوں اور تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانی لایا ہوں۔ اس لیے تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری پیروی کرو، بے شک اللہ تعالیٰ ہی میرا اور تمہارا رب ہے، بس اسی کی عبادت کرو کیونکہ یہی صراط مستقیم ہے۔

جب حضرت عیسٰیؑ نے اپنی قوم کی طرف سے جھٹلائے جانے کا خطرہ محسوس کیا تو کہا کہ اللہ کی راہ میں میرے مددگار کون ہیں؟ ان کے حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے اللہ! ہم آپ کے اتارے ہوئے احکام پر ایمان لاتے ہیں اور ہم نے آپ کے رسول (حضرت عیسٰیؑ) کی پیروی اختیار کی ہے اس لیے ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں شمار فرما۔ جبکہ حضرت عیسٰیؑ کے منکروں نے تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ سب سے بہتر تدبیر کرنے والے ہیں۔

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰیؑ سے کہا کہ میں تجھے وصول کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں اور تجھے کافروں سے نجات دینے والا ہوں اور تیرے پیروکاروں کو قیامت تک تیرے دشمنوں پر غلبہ دینے والا ہوں۔

بے شک حضرت عیسٰیؓ کی مثال آدمؑ کی طرح ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مٹی سے بنایا اور پھر فرمایا کہ ہو جا تو وہ (ایک زندہ انسان) ہوگیا۔ یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے، بس ہرگز تم شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔

سورہ النساء کی آیت ۱۵۵ تا ۱۵۹ میں اللہ تعالیٰ نے یہود بنی اسرائیل کے دلوں پر کفر کی مہر لگا دینے کے اسباب بیان کرتے ہوئے ایک سبب یہ بھی ذکر کیا کہ انہوں نے حضرت عیسٰیؑ کا انکار کر دیا اور حضرت مریمؑ پر (حضرت عیسٰیؑ کی بغیر باپ ولادت کے حوالے سے) بہتان عظیم باندھ دیا اور یہ کہا کہ ہم نے مسیح عیسٰیؑ بن مریمؑ کو قتل کر دیا ہے۔ حالانکہ نہ انہوں نے اسے قتل کیا اور نہ سولی پر لٹکایا بلکہ وہ شبہہ میں ڈال دیے گئے اور جس بات میں وہ اختلاف کرتے ہیں وہ شک کی بنیاد پر کرتے ہیں، ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی علم نہیں اور وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ یقینی بات ہے کہ انہوں نے حضرت عیسٰیؑ کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا تھا اور الہ تعالیٰ زبردست اور حکمت والا ہے۔ اور اہل کتاب میں کوئی بھی نہیں ہے مگر وہ سب حضرت عیسٰیؑ پر ان کی موت سے پہلے ایمان لائیں گے۔

سورہ النساء کی آیت ۱۷۲ میں ہے کہ حضرت عیسٰیؑ نے کبھی اس بات سے عار محسوس نہیں کی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور نہ ہی اس بات سے اللہ تعالیٰ کے فرشتے عار محسوس کرتے ہیں۔ اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی بندگی سے عار محسوس کرتا ہے اور تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔

سورہ المائدہ کی آیت ۱۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے کفر اختیار کیا جنہوں نے کہا کہ مسیح بن مریمؑ ہی خدا ہیں۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر اللہ تعالیٰ حضرت عیسٰیؑ، ان کی والدہ اور روئے زمین کے سب لوگوں کو موت دے دیں تو اللہ تعالیٰ کے سامنے کس کا بس چل سکتا ہے؟

سورہ المائدہ کی آیت ۴۶ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے موسٰیؑ کے بعد ان کے نقش قدم پر عیسٰیؑ بن مریمؑ کو بھیجا، وہ اس سے پہلے کی کتاب توراۃ کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے ان کو انجیل دی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ توراۃ کی تصدیق کرتی تھی اور متقین کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔

سورہ المائدہ کی آیت ۷۲ تا ۷۵ میں ارشاد خداوندی ہے کہ ان لوگوں نے کفر اختیار کیا جنہوں نے کہا کہ حضرت عیسٰیؑ بن مریمؑ ہی خداوند ہیں۔ حالانکہ حضرت عیسٰیؑ نے فرمایا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ اور بے شک جس نے اس کے ساتھ شرک کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔ اور ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تین میں سے ایک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور اگر وہ اس سے باز نہ آئے تو انہیں دردناک عذاب پہنچے گا۔ حضرت عیسٰیؑ صرف اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ان سے پہلے کئی رسول گزر چکے اور ان کی والدہ (حضرت مریمؑ) سچی خاتون تھیں اور وہ دونوں ماں بیٹا کھانا کھایا کرتے تھے۔

سورہ المائدہ کی آیت نمبر ۷۸ تا ۸۰ میں ہے کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہوئے ان پر حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان پر (ان کے ذریعے) لعنت کی گئی اس لیے کہ وہ نافرمانی میں حد سے بڑھ گئے تھے، وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے اور کافروں کے ساتھ دوستی کیا کرتے تھے۔

سورہ المائدہ کی آیت ۱۰۹ تا ۱۱۸ میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسٰیؑ کو اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہیں کہ میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیں، جب روح القدس (جبرائیل علیہ السلام) کے ساتھ تمہاری مدد کی، جب تم ماں کی گود میں او رپختہ عمر میں یکساں کلام کرتے تھے، جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور توراۃ و انجیل کی تعلیم دی، جب تم مٹی سے پرندوں کے مجسمے بنا کر ان میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتے تھے، تم اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے تندرست بنا دیا کرتے تھے، جب تم قبروں سے مردوں کو زندہ اٹھا لیا کرتے تھے، جب میں نے بنی اسرائیل کو تمہیں نقصان پہنچانے سے روک دیا، جب تم ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تھے اور انہوں نے انہیں جھٹلاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تو کھلا جادو ہے، جب میں نے حواریوں سے کہا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو وہ ایمان لے آئے، جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسٰیؑ بن مریم کیا آپ کا رب اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (تیار کھانے کا) دستر خوان اتارے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ حواریوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم (آسمانی کھانا) کھائیں اور ہمارے دلوں کو اطمینان حاصل ہو اور ہم جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس پر گواہ ہو جائیں۔ حضرت عیسٰیؑ نے دعا مانگی کہ اے اللہ! ہم پر آسمان سے دستر خوان اتار دے، وہ ہمارے لیے عید کا دن ہوگا اور ہمارے بعد والوں کے لیے بھی عید ہوگی اور تیری قدرت کی نشانی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر دستر خوان اتارنے والا ہوں لیکن اس کے بعد جس نے کفر کیا اسے ایسا عذاب دوں گا کہ سارے جہانوں میں ایسا عذاب کسی اور کو نہیں دوں گا۔

سورہ المائدہ کی انہی آیات کے مطابق یہ نعمتیں یاد دلا کر اللہ تعالیٰ حضرت عیسٰیؑ سے قیامت کے دن پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ تعالیٰ کے سوا خدا بنا لینا؟ حضرت عیسٰیؑ جواب دیں گے کہ اے اللہ تیری ذات ان باتوں سے پاک ہے، مجھے ایسی بات کہنے کا کوئی حق ہی نہیں تھا اور اگر یہ بات میں نے کہی ہوتی تو آپ کے علم میں ہوتی، میں نے تو انہیں وہی کہا تھا جس کا آپ نے مجھے حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔

سورہ التوبہ آیت ۲۹ و ۳۰ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہود نے کہا کہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کی خود ساختہ باتیں ہیں اور وہ پہلے کافروں کی طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو اللہ تعالیٰ کے سوا رب بنا رکھا ہے اور عیسیٰ بن مریمؑ کو بھی خدا بنا لیا ہے۔ حالانکہ انہیں اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں جو ایک ہی خدا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے جو وہ شرک کرتے ہیں۔

سورہ مریم آیت ۱۶ تا ۴۰ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰیؑ کی ولادت کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔ جب حضرت مریمؑ اپنے گھر والوں سے مشرقی جگہ میں الگ ہو کر اوٹ میں ہوگئیں تو ہم نے روح القدس کو بھیجا جس نے ایک کامل انسان کی شکل اختیار کر لی۔ حضرت مریمؑ نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ میں تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو خدا خوفی رکھنے والا ہے۔ اس نے کہا کہ میں تیرے رب کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔ حضرت مریمؑ نے کہا کہ میرا لڑکا کہاں سے ہوگا جبکہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار عورت بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ اسی کیفیت میں ہوگا، تیرا رب کہتا ہے کہ یہ بات میرے لیے آسان ہے اور میں اس لڑکے کو اپنی قدرت کی نشانی بناؤں گا اور وہ رحمت ہوگا اور یہ بات تو طے شدہ ہے۔ پس وہ حاملہ ہوئی اور اسے لے کر الگ دور جگہ میں چلی گئی، جب اسے درد زہ ایک کھجور کے تنے کے پاس لے گیا تو اس نے (بدنامی کے خوف سے) کہا کہ اے کاش! میں اس سے قبل مر چکی ہوتی اور بھولی بسری ہو جاتی۔ فرشتے نے نیچے سے آواز دی کہ گھبراؤ نہیں تمہارے رب نے تمہارے قدموں میں پانی کا چشمہ نکال دیا ہے اور کھجور کے تنے کو حرکت دو تم پر تروتازہ کھجوریں گریں گی، پس کھاؤ ، پیو اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرو۔ اور اگر کسی انسان کو دیکھو تو اسے بتاؤ کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے لیے کلام نہ کرنے کا روزہ رکھا ہوا ہے اس لیے آج کا دن میں کسی سے کلام نہیں کروں گی۔ پس وہ اپنے بچے کو لے کر قوم کے پاس آئی، وہ اسے اٹھائے ہوئے تھی، لوگوں نے کہا کہ اے مریمؑ! تم تو یہ بہت بری چیز لے آئی ہو، نہ تو تمہارا باپ برا شخص تھا اور نہ ہی تمہاری ماں بدکار تھی۔

حضرت مریمؑ نے بچے کی طرف اشارہ کیا کہ اسی سے پوچھو۔ انہوں نے کہا کہ گود کے بچے سے ہم کیسے کلام کریں؟ اس پر حضرت عیسٰیؑ (ماں کی گود میں) بول پڑے کہ بے شک میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں، مجھے اس نے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے، مجھے برکت والا بنایا ہے، میں جہاں بھی ہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے، مجھے اپنی ماں کے لیے فرمانبردار بنایا ہے اور تندخو اور بدنصیب نہیں بنایا، مجھ پر سلامتی ہو جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔

یہ تفصیل بیان کر کے اللہ تعالیٰ ان آیات میں یہ فیصلہ سناتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریمؑ یہی ہیں، یہی حق ہے جس کے بارے میں یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے، اس کی ذات پاک ہے، وہ جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتا ہے (یعنی اس کو کسی مددگار کی ضرورت نہیں)۔

سورہ المومنون آیت ۵۰ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عیسٰیؑ اور ان کی والدہ محترمہ کو اپنی خاص قدرت کی نشانی بنایا اور ہم نے ان دونوں کو ایک بلند ٹیلے پر پناہ دی جو قرارگاہ اور چشمے والی تھی۔

سورہ الزخرف آیت ۶۰ میں فرمایا ہے کہ حضرت عیسٰیؑ قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں، اس بات میں ہرگز شک میں نہ پڑنا اور میری پیروی کرنا یہی صراط مستقیم ہے۔

سورہ الصف آیت ۶ میں ہے کہ جب حضرت عیسٰیؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، مجھ سے پہلے کتاب توراۃ ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد آنے والے نبی کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمدؐ ہوگا۔

یہ ایک خلاصہ ہے جو قران کریم کے بیسیوں مقامات میں حضرت عیسٰیؑ اور حضرت مریمؑ کے تذکروں میں سے ہم نے پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سینکڑوں ارشادات میں سے بھی کچھ کا تذکرہ کیا جائے جو پیغمبر آخر الزمانؐ نے اس مقدس ماں اور اس کے مقدس بیٹے کے بارے میں فرمائے ہیں۔

بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ البتہ ضرور تم میں ابن مریمؑ نازل ہوں گے حاکم اور عادل بن کر۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ کو ختم کر دیں گے اور مال کو اتنا عام کریں گے کہ کوئی قبول کرنے والا نہیں ہوگا اور یہ اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک سجدہ دنیا اور اس کی ساری دولت سے بہتر ہوگا۔

مسلم شریف میں حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا اور قیامت تک وہ گروہ غالب رہے گا (کہ اسے حق سے کوئی ہٹا نہیں سکے گا)۔ پھر حضرت عیسٰیؑ نازل ہوں گے، مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا کہ حضرت تشریف لائیے اور ہمیں نماز پڑھا دیجئے، وہ فرمائیں گے کہ تم آپس میں ہی ایک دوسرے کے امام ہو، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کا اعزاز ہے۔

مسلم شریف میں حضرت نواس بن سمعانؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اکرمؐ نے قیامت سے قبل امت مسلمہ کی زبوں حالی کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی دوران اللہ تعالیٰ حضرت مسیح بن مریمؑ کو بھیج دے گا اور لوگ دمشق کے مشرقی جانب عیسٰیؑ کو موجود پائیں گے۔

ابو داؤو طیاسی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ حضرت عیسٰیؑ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، مال کو پانی کی طرح بہائیں گے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ان کے دور میں اسلام کے سوا باقی سارے دینوں کو مٹا دیں گے۔ جھوٹے مسیح دجال کو ہلاک کر دیں گے، زمین میں امن قائم ہو جائے گا حتیٰ کہ شیر اونٹ کے ساتھ، چیتا گائے کے ساتھ اور بھیڑیا بکریوں کے ساتھ پانی پیے گا اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور کوئی کسی کو نہیں کاٹے گا۔ حضرت عیسٰیؑ زمین پر چالیس سال تک رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی، مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے اور انہیں دفن کریں گے۔

مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے حضرت عیسٰیؑ فج الروحاء کے مقام سے (مدینہ منورہ سے چھ میل دور ایک جگہ کا نام ہے) حج یا عمرے کا یا دونوں کا احرام باندھیں گے۔ جبکہ مستدرک حاکم کی روایت میں حضرت ابوہریرہؓ یہ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ پھر حضرت عیسٰیؑ میری قبر پر آکر مجھے سلام کہیں گے اور میں ان کے سلام کا جواب دوں گا۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے قبیلہ جزام کے لوگوں سے، جو قبیلہ ازد کی شاخ ہے، فرمایا کہ حضرت عیسٰیؑ تمہارے خاندان کی ایک خاتون سے شادی کریں گے اور شادی کے بعد انیس سال زندہ رہیں گے۔ جبکہ علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے اپنی کتاب ’’التصریح‘‘ میں علامہ سفارینیؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اس خاتون سے حضرت عیسٰیؑ کے دو بیٹے ہوں گے، وہ ایک کا نام موسیٰ اور دوسرے کا نام محمد رکھیں گے۔

امام نور الدین الہیشمیؒ مسند بزار کے حوالے سے راویوں کی توثیق کے ساتھ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ حضرت عیسٰیؑ آسمان سے نازل ہوں گے اور لوگوں کی امامت کریں گے۔ محدثینؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ پہلی نماز اس امت کے امام کے پیچھے پڑھیں گے جبکہ اس کے بعد وہ نمازوں کی امامت بھی فرمائیں گے اور امت کی قیادت بھی کریں گے۔

بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے فرمایا کہ میں دنیا اور آخرت دونوں جگہ حضرت عیسٰیؑ سے زیادہ قریب ہوں۔ اس لیے ہم مسلمانوں کا تعلق اور عقیدت بھی حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ باقی سب سے زیادہ ہے اور ان کا ادب و احترام ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ البتہ ہمارے نزدیک عقیدت، ادب اور احترام کا حقیقی اظہار کوئی دن منا لینے سے زیادہ ان کی اطاعت اور پیروی میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے، آمین یا رب العالمین۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے