نواز شریف کی تاریخ ساز مزاحمت

نوازشریف جس کے سر پر ہاتھ رکھ دیں،کیا وہی آئندہ وزیراعظم ہوگا؟

شہباز شریف تو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ 23 دسمبرکو،جب وہ ‘یومِ قائد ‘ کی تقریب میں تشریف لائے توانہوں نے مغربی طرز کا سوٹ پہن رکھا تھا اورخطاب بھی بزبانِ انگریزی کیا۔ گویا یہ مستقبل کے وزیراعظم کی تقریب رونمائی تھی۔ اگرچہ ن لیگ نے باضابطہ طورپر یہ اعلان نہیں کیا کہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے،اس کے امیدوار شہباز شریف ہیں لیکن نوازشریف نے اپنا انتخاب بتا دیا ہے۔ ن لیگ کی روایت یہی ہے کہ ساری جماعت کا انتخاب وہی ہو گا جو نوازشریف کا ہے۔ اس سے ایک بارپھر واضح ہو گیا کہ پاکستان کی سیاست میں نوازشریف کا کردار مرکزی ہے۔ انہیں مائنس کر نا ممکن نہیں۔

یہ نوازشریف صاحب کی مزاحمت تھی جس نے منظر تبدیل کیا ہے۔ وہ اقتدار سے الگ کیا ہوئے، اُن پر چاروں طرف سے یلغار کر دی گئی۔ گمان ہوتا تھا کہ یہ مہم جُو، اس زمین کو ان کے وجود سے پاک کرکے ہی دم لیں گے۔ ان کی حب الوطنی سے لے کر ان کے ایمان تک،ہر شے کو مشکوک بنا دیا گیا۔ انہیں خوف زدہ کیا گیا کہ سڑک پر نکلیں گے تو ان کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ خودن لیگ کے داخلی حلقے حرکت میں آئے اور انہیں سڑکوں پر نکلنے سے روکا گیا۔ نوازشریف نے اس ساری مخالفت کے با وجود مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ یہ مزاحمت ن لیگ کو نئی زندگی دے گئی۔

اگر نوازشریف مزاحمت نہ کرتے تو حدیبیہ مقدمے کا فیصلہ مختلف بھی ہو سکتا تھا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اگروہ جد وجہد نہ کرتے تو نوازشریف نا اہل نہ ہوتے۔ نوازشریف نے بھی یہی سمجھا کہ اگر انہوں نے کوشش نہ کی تو فیصلے ان کے خلاف ہی آتے رہیں گے۔ وہ نکلے تو ایک جوابی بیانیہ پیدا ہوا جس نے عوامی دباؤ کی صورت اختیار کر لی۔ یہ حدیبیہ کا فیصلہ ہے جس نے شہباز شریف صاحب کے لیے امکانات پیدا کیے۔ شہباز شریف جانتے ہیں کہ نوازشریف انتخابی مہم کی قیادت کریں گے تو وہ وزیراعظم بن سکیں گے۔ جوڑ توڑ کی سیاست سے اقتدار کو قائم رکھا جا سکتا ہے مگر اقتدار تک پہنچنے کے لیے عوامی تائید کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوامی تائید یعنی ووٹ کی یہ کنجی بدستور نوازشریف کی جیب میں ہے۔

نوازشریف کی مزاحمت نے ان سب قوتوں کو دفاعی حکمتِ عملی پر مجبورکر دیا ہے جو ان کی سیاست اور عزت کے درپے تھیں۔ اب انہیں اپنے دفاع کے لیے دلائل دینا پڑتے ہیں۔ اب فیصلے نہیں بولتے معزز جج صاحبان کو خودبھی بولنا پڑتا ہے۔ اِن قوتوں کو زبانِ حال سے یہ پیغام دینا پڑتا ہے کہ وہ آئین اور پارلیمان کی حرمت کو مانتی ہیں۔ اسی مزاحمت سے انتخابات کے بروقت انعقاد کا امکان پیدا ہو اہے۔ گویانوازشریف بدستور سیاست کا محور ہیں۔

وہ ایک ایسی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں جو مزاحمتی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔ جو اقتدار کے پانی کی مچھلی ہے۔ انہوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا تو ان کا سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا۔ پنجاب کی ثقافت میں بھائی سائے کی طرح ہوتے ہیں۔ وارث شاہ نے اسے فنی کمال کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس فضامیں نوازشریف نے میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اسلام آباد سے لاہور کا سفر ہے جس نے عصری سیاست میں ایک جوابی بیانیہ پیدا کیا۔ اب شہباز شریف صاحب کو بھی اندازہ ہو چلا ہے کہ وہ اگر وزارتِ عظمیٰ کے لیے ایک توانا حریف ہیں تو اس کی وجہ نوازشریف ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟

میں توجہ دلاتا رہا ہوں کہ سیاسی قوت، عوامی عصبیت سے پھوٹتی ہے۔ یہ عصبیت اگر کسی کے حق میں پیدا ہو جا ئے تو بآسانی ختم نہیں ہو سکتی۔ مصنوعی طریقے سے تو بالکل نہیں۔ کسی فرد کی عصبیت اسی وقت ختم ہو سکتی ہے جب ایک دوسری اور اس سے مضبوط تر عصبیت وجود میں آجا ئے۔ اس بات کو سیاسی عمل کا تسلسل ہی یقینی بناتا ہے۔ نوازشریف صاحب کا مقابلہ کوئی سیاسی قوت کر سکتی ہے، غیر سیاسی قوت نہیں۔ غیر سیاسی قوت اُن کی جان لے سکتی ہے مگر ان کی سیاست کو ختم نہیں کر سکتی۔ جیسے دہشت گردوں نے بے نظیر بھٹو کو تو مار دیا مگر ان کی سیاست کو نہیں مار سکے۔

بد قسمتی سے لوگوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ انہوں نے گمان کیا کہ ن لیگ کوئی مزاحمتی قوت نہیں۔ نوازشریف اس مردہ گھوڑے پر جتنے چابک برسا لیں، یہ حرکت میں نہیں آئے گا۔ یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ نوازشریف نے اسے متحرک کر دیا۔ نوازشریف صاحب کے مخالفین بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ان کے خلاف عدالتی عمل جس طرح آگے بڑھا ، وہ اس کی تائید نہیں کر سکتے۔ نوازشریف اگر مزاحمت نہ کرتے تو بھی لوگ اسی نتیجے تک پہنچتے مگر تاخیر کے ساتھ۔

یہ نوازشریف کی مزاحمت ہے جس نے آئندہ انتخابات کے سفر کے لیے ن لیگ کو زادِ راہ فراہم کر دیا ہے۔ شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ جو کارکردگی دکھائی ہے، وہ اس سفر کوسہل بنا دے گی۔ تاہم اس میں وفاقی حکومت کی کارکردگی کا کردار بھی بنیادی ہو گا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ وفاقی حکومت کا کارنامہ ہے۔ میرے نزدیک حسن ِ کارکردگی اور دوسرے عوامل اہم ہونے کے باوجود ضمنی ہیں۔ اصلاً یہ نوازشریف کی مزاحمت ہے جس نے ن لیگ کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔

یہ سیاسی منظر نامہ بتا رہا ہے کہ نوازشریف مائنس نہیں ہوئے۔ مائنس وہ تب ہوتے جب سیاسی عمل سے غیر متعلق ہو جاتے۔ نوازشریف جانتے ہیں کہ ان کے بارے میںعدالت ِ عظمیٰ کا فیصلہ نافذہو چکا۔ وہ اگلے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے ،اس لیے سرِ دست وزیراعظم بننے کا تو کوئی امکان نہیں۔ سیاست لیکن محض بادشاہ بننا نہیں ہے۔ بادشاہ گری بھی سیاست ہے بلکہ اعلیٰ سیاست ہے۔ انتخابات میں ان کے مخالفین بھی مجبور ہوں گے کہ انہیں ہدف بنائیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اس بت کی موجودگی میں وہ بھگوان نہیں بن سکتے۔ اگر عوام ن لیگ کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں تو یہ دراصل نوازشریف کے حق میں فیصلہ ہو گا۔یہ نوازشریف کی بڑی کامیابی ہو گی۔

کاش ہماری سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں یہ جان پا ئیں کہ سیاست عمل میں نظافت، سیاسی عمل کے فطری بہاؤ کے نتیجے میں آتی ہے،اس پر بند باندھ کر نہیں۔ بند باندھنے سے اگر سیلاب نہ آئے تو تعفن ضرور پیدا ہو تاہے۔ نوازشریف کی مزاحمت نے سیاسی عمل کو اس کے فطری بہاؤ پر ڈال دیا ہے۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ فیصلہ عوامی عدالت میں ہو گا۔ عوام طے کریں گے کہ اس ملک پر حکمرانی کا حق کسے ہے؟

اقتدار معاشرتی وسیاسی استحکام کے لیے ہوتا ہے۔ استحکام اسی اقتدار کو میسر آتا جسے عوامی تائید حاصل ہو۔ اسے عصبیت کہا جا تا ہے اور یہ اقتدار کے استحکام کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اقتدار کی سیاست نیکی اور بدی کی نہیں، استحکام اور عدم استحکام کی سیاست ہو تی ہے۔ دوسری باتیں ضمنی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظم اجتماعی میں سب سے پہلے استحکام پیدا کیا جا تا ہے، اس کے بعد دیگر اصلاحات لائی جا تی ہیں۔

نوازشریف کی مزاحمت نے سیاسی عمل کو ایک بار پھر استحکام کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ اگر 2018 ء کے انتخابات بر وقت اور شفاف ہوگئے توپاکستان میں پرامن انتقالِ اقتدار کی روایت مستحکم ہو جائے گی جو ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس کے بعد کرپشن سمیت دوسرے معاملات کو بہتر طورپر مخاطب بنایا جا سکتا ہے۔ عدم استحکام کرپشن کی ماں ہے۔ سیاسی عدم استحکام رہے گا توکرپشن پیدا ہوتی رہے گی۔

عدم استحکام کے خاتمے کے لیے طاہر القادری صاحب جیسے کرداروں کا ناکام و نامراد ہو نا ضروری ہے۔ کاش کرپشن کے خاتمے کی خواہش رکھنے والے اس حقیقت کو سمجھ سکتے۔ اب عملاً یہ ناممکن ہو گیا ہے کہ انتخابات وقت سے پہلے ہوں ۔ اس لیے سیاسی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دھرنے یا احتجاج کی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے، اگلے انتخابات کے لیے حالات کو سازگار بنائیں۔ اس وقت دھرنوں کی حمایت وہی کر سکتا ہے جو عوام کی قوت سے خوف زدہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے