نا معلوم لڑکی کی کہانی

دسمبر کی سرد شام انگیٹھی کے پاس بیٹھ کر کافی کے گرم مگ کا گھونٹ بھرتے ہوئے یکایک مجھے خیال آیا کہ میں نے کئی ہفتوں سے غریبوں کے لئے کوئی کالم نہیں لکھا، پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو کامیابی کا کوئی نسخہ نہیں بتایا، مزدوروں کو محنت سے روٹی کمانے کا ثواب نہیں گنوایا اور سفید پوش لوگوں کو زندگی میں حوصلہ نہ ہارنے کے گُر نہیں سکھائے۔ مجھ ایسے لوگ یہ کام نہایت شوق سے کرتے ہیں ۔کہیں کوئی بھولا بھٹکا نوجوان ہمارے ہتھے چڑھ جائے جو زندگی میں ناکام ہو تو ہم پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، محنت نہ کرنے کے طعنے دیتے ہیں، کامیابی کے مختلف ریسرچ ماڈل اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، ناکامی کی وجوہات اسے بتاتے ہیں اور پھر نہایت اطمینان سے یہ کہہ کر اسے رخصت کر دیتے ہیں کہ صبح چھ سے رات بارہ بجے تک محنت سے کام کرو، کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔ ایسے ناکام لوگوں میں ہمیں دنیا جہان کی خرابیاں نظر آتی ہیں اور اپنی ذات میں سوائے خوبیوں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ دور افتادہ علاقوں، غریب گھرانوں اور پسماندہ قصبوں سے تعلق رکھنے والے اِن نوجوانوں کو ہم بل گیٹس، وارن بوفے، اسٹیواسٹیو جابز اور مارک زوکر برگ کی مثالیں دے کر انسپائر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ حجرہ شاہ مقیم کے کسی ٹاٹ اسکول میں پڑھنے والا سیلیکون ویلی سے تعلق رکھنے والے کو یوں پچھاڑ لے گا جیسے کسی زمانے میں رستم زماں اپنے حریف پہلوان کو پچھاڑ لیا کرتے تھے۔ جی مجھے معلوم ہے کہ اب آپ مجھے اُن لوگوں کے قصے سنائیں گے جو بھارت کے کسی گاؤں میں پیدا ہوئے اور آج امریکہ کی کمپنیوں میں چیف ایگزیکٹو بن کر لاکھوں ڈالر تنخواہ لے رہے ہیں۔ سب کچھ ممکن ہے اور یہ سب کہنا اور بھی آسان ہو جاتا ہے جب آپ اپنے لان میں بیٹھ کر دھوپ سینک رہے ہوں، آملیٹ، مکھن، توس اور چائے کا ناشتہ کر رہے ہوں اور ساتھ واشنگٹن پوسٹ کے صفحات الٹ رہے ہوں۔ ایسے میں کوئی شامت کا مارا آپ سے کامیابی کا راز پوچھ لے تو کمال بے اعتنائی سے منہ سے ایک ہی جواب نکلتا ہے ’’محنت کرو بچے محنت، کامیابی کسی درخت سے لٹکی ہوئی نہیں ملتی، جی مارنا پڑتا ہے، اسٹیو جابز کی مثال ہی لے لو!‘‘ بس پھر چل سو چل۔ غریب بیچارہ آپ کی شکل اور چائے کا مگ ہی دیکھتا رہ جاتا ہے۔

پچھلے دنوں ایک دھان پان سی لڑکی نے میرا مطمح نظر ہی تبدیل کر دیا۔ وہ کہیں کوئی امتحان دینے آئی تھی، میں نے پوچھا کہ اس کا تعلق کس جگہ سے ہے، اُس نے کسی ایسے قصبے کا نام بتایا جو میں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا، ضلع اٹک کی کسی تحصیل سے آگے کوئی نامعلوم گاؤں تھا جہاں وہ پیدا ہوئی، پلی بڑھی، میٹرک کیا، کالج میں داخلہ لینے راولپنڈی آ گئی، ایم اے کیا، واپس اپنے گاؤں گئی، وہاں کی تحصیل میں کوئی ملازمت کرلی، ملازمت کے دوران پڑھائی نہیں چھوڑی، ایک ایم اے اور کیا، پھر ایک بہتر ملازمت کی، اب دوبارہ شہر آئی تھی کسی اور ملازمت کا امتحان دینے۔ میں نے سوال کیا کہ چھوٹی سی عمر میں اس قدر پسماندہ علاقے سے تعلق کے باوجود اتنا سب کچھ کیسے کر لیا؟ ایک فقرے میں کہانی سمٹ گئی ’’سر! حالات سب کچھ کروا دیتے ہیں۔‘‘ اس دبلی پتلی لڑکی کے لہجے میں درد بھرا اعتماد تھا۔ ایسی کہانیاں ہمارے طول و عرض میں بکھری پڑی ہیں، لوگ روز صبح اٹھتے ہیں، زندگی سے جنگ کرتے ہیں اور تھک ہار کر رات کو سو جاتے ہیں، اگلی صبح ایک نئی جنگ اُن کے لئے تیار ہوتی ہے۔ جہنم کی بھٹیوں جیسے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں، دیہاڑی دار محنت کشوں یا جگمگ کرتے ریستورانوں اور بین الاقوامی فوڈ چینز میں کام کرنے والے نوجوانوں کو، جن کی ماہانہ کمائی کسی خوشحال خاندان کے ایک وقت کے کھانے کے بل کے برابرہوتی ہے، اگر یہ بتایا جائے کہ تم سب بھی زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہو اگر ’’مزید محنت‘‘ کرو تو وہ ہم جیسوں کے بارے میں دل میں کیا سوچیں گے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔

ہم بڑے شہرو ں میں پیدا ہونے والے، مناسب اسکولوں میں پڑھنے والے جنہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں حاصل کرنے کے لئے اُس ذلت سے نہیں گزرنا پڑا جو عام آدمی کی قسمت میں لکھی ہوئی ہے، نہایت اطمینان سے اُن لوگوں میں کامیابی کے نسخے بانٹتے پھرتے ہیں جن کے لئے پیاز کے ساتھ روٹی کھانا بھی عیاشی کے زمرے میں آتا ہے۔ سفید پوش طبقے کے لئے ہم نے صبر اور قناعت کا نصاب تیار رکھا ہوا ہے تاکہ وہ ساری عمر خداکا شکر ادا کرتے ہوئے بسر کر دیں کہ عزت سے روٹی تو کھاتے ہیں کسی کے آگے ہاتھ تو نہیں پھیلانا پڑتا، کسی دیہاڑی دار مزدور کی طرح سڑک کے کنارے بیٹھ کر مزدوری کا انتظار تو نہیں کرنا پڑتا۔ غربت کی لکیر سے نیچے ’’زندہ‘‘ رہنے والے افراد ہم جیسوں کے لئے محض ایک نمبر ہیں ۔تئیس فیصد، فیصدیا پھر اٹھارہ فیصد، غربت کی لکیر کیا ہوتی ہے، یہ کیسے کھینچی جاتی ہے، اس کے نیچے اور اوپر کتنے افراد کیسے زندہ رہتے ہیں، ہمیں کوئی اندازہ نہیں۔ جو ماہرین معیشت غربت کی یہ لکیر کھینچتے ہیں وہ دراصل خوبصورت انگریزی میں دیدہ زیب چارٹ پر گراف وغیرہ بنا کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ اگر ایک شخص کو زندہ رہنے کے لئے روزانہ ایک روٹی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ شخص غربت کی لکیر کے نیچے مانا جائے گا جسے ایک روٹی سے کم ملتی ہو۔ اپنا ایک دوست یاد آیا جو نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ پارٹنر ساؤتھ افریقہ کے ساحل کے کنارے بیٹھ کر میں نے پاکستان کے غریبوں کے بارے میں بہت غور کیا!

کچھ ایسا ہی کام میں بھی کر رہا ہوں، گرم کافی کی چسکیاں لگاتے ہوئے، لیپ ٹاپ پر غریبوں کے لئے یہ کالم ٹائپ کر رہا ہوں، فرق صرف یہ ہے کہ میں پسماندہ اور دورافتادہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے پسے ہوئے طبقات کے افراد، زندگی کے خلاف جنگ کرنے والے مرد و زن، غربت کی لکیر کے نیچے، اوپر اور درمیان زندہ رہ کر دکھانے والے انسانوں اور جہنم نما کارخانوں میں مزدوری کرنے والے محنت کشوں کو یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ وہ اگر ’’مزید محنت‘‘ کریں تو دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اُن میں یا اُن کے بچوں میں بین الاقوامی کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں، دنیا کے ہر انسان میں خدا نے بے پناہ صلاحیت رکھی ہے مگر کسی شخص کی تمام صلاحتیں اگر روزانہ کی بنیاد پر پیاز اور روٹی کمانے میں ہی صرف ہو جائیں تو اس میں اُس انسان کا کوئی قصور نہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے بل گیٹس یا اسٹیو جابز کی مثال دینے کی بجائے اُس باہمت لڑکی کی مثال دینی چاہئے جو نامساعد حالات میں بھی حوصلہ نہیں ہاری اور آج بھی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے پر امید ہے۔ میرے لئے وہ لڑکی کسی اسٹیو جابز سے کم نہیں۔

کالم کی دُم:میرا اندازہ ہے کہ قائد اعظم اگر زندہ رہتے تو یقیناً فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کی حمایت کرتے، ون یونٹ بناتے، مشرقی پاکستان میں آپریشن کا حکم دیتے، مارشل لا کو جواز فراہم کرتے، افغان جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور پرویز مشرف کو تو باقاعدہ گود لے لیتے۔ اگر آپ میں سے کسی کو لگتا ہے کہ قائد ایسا بالکل نہ کرتے تو وہ لوگ جو اِن تمام اقدامات کی حمایت کرتے ہیں (تھے)، پلیز قائد کے افکار پڑھ کر اُن کا یوم ولادت منانا چھوڑ دیں تاکہ قائد کی روح کو سکون مل سکے، شکریہ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے