روہنگیا مہاجرین اور اقوام متحدہ

عہد حاضر میں روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ میانمار حکومت انہیں بنگلہ دیشی قرار دیتی ہے اور بنگلہ دیش حکومت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ماضی میں بھی روہنگیا پر مظالم کا سلسلہ جاری رہا، انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا، ان کے گھر اور مساجد نذر آتش کردی گئیں۔ تاہم روہنگیا کے لئے آلام کا بدترین سلسلہ 1962ء سے 2010ء تک کے مارشل لا کے دوران شروع ہوا۔ اسی دوران ان کیخلاف درجنوں کریک ڈائون کئے گئے۔

مارشل لا میں ہی ایک قانون کے تحت انہیں میانمار کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا، جس کے تحت نہ وہ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں نہ سرکاری ملازمت۔ 2012ء میں دنیا ان مظالم سے باخبر ہوئی جب بدھ بھکشوئوں اور میانمار آرمی نے سینکڑوں مردوں، عورتوں اور بچوں تک کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا یا زندہ جلا دیا۔ مسلم دنیا میں تو ہلچل ہوئی لیکن مغرب خاموش رہا۔ 2017ء میںاپنے فوجیوں پر حملے کا الزام لگا کر میانمار حکومت نے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کردی۔ لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے کچھ محققوں نے رپورٹ پیش کی کہ میانمار حکومت کی زیر سرپرستی روہنگیا مسلمانوں کی باضابطہ نسل کشی آخری مراحل میں ہے۔ میانمار حکومت نے اسے داخلی معاملہ قرار دے کر میڈیا کو بھی رسائی نہ دی۔

روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے جہاں وہ کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روہنگیا مسلمانوں سے متعلق او آئی سی کی قرارداد کا کثرت رائے سے منظور ہونا ایک احسن عمل ہے۔ جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ میانمار حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کو وطن واپسی کی اجازت اور میانمار کی شہریت بھی دے۔ دنیا کے 122ممالک کی تائید سے منظور ہونے والی اس قرارداد پر اقوام متحدہ عملدرآمد کویقینی بنائے تاکہ اتنا بھیانک انسانی المیہ ٹل سکے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب قرارداد پرعمل نہ کرنے پر میانمار حکومت کو اقتصادی و معاشی پابندیوں کا خوف ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے