سال 2017ء میں پاکستانی سینما کی صورتحال اور جائزہ

ہمیں یہ بات اکثر سننے کو ملتی ہے کہ پاکستانی سینما کی بحالی کا عمل شروع ہوگیا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کا کھویا ہوا سُنہری دور واپس آرہا ہے۔

اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ اسے عملی طور پر جاننے کے لیے رواں سال کے باکس آفس پر ایک نظر ڈالنی ہوگی اور پاکستانی سینما کی تخلیقی کارکردگی کو جاننا ہوگا، جس کے بعد ہی یہ بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستانی سینما کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور کیا واقعی کوئی بحالی ہورہی ہے، یا صرف بات زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔

رواں برس 2017ء میں کُل 17 اردو فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں، جن میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ ہے۔

اس فلم نے پاکستان اور بیرونِ ملک کی کُل کمائی ملا کر، اب تک 50 کروڑ روپے کمائے ہیں۔

یہ فلم نہ صرف رواں برس کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم ثابت ہوئی بلکہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی فلم کے نئے دور میں جتنی فلمیں بنی ہیں ان میں بھی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم کا اعزاز بھی اپنے نام کرچکی ہے۔

اس فلم کے علاوہ، جن فلموں کو رواں سال باکس آفس پر کامیابی ملی، ان میں ’نامعلوم افراد ٹو‘، ’یلغار‘ اور ’مہر النساء وی لب یو‘ شامل ہیں۔

باقی تھوڑی بہت کمائی کرنے یا بالکل ناکام ہونے والی فلموں میں ’راستہ‘، ’جیو سر اٹھا کے‘، ’تھوڑا جی لے‘، ’چلے تھے ساتھ‘، ’بالو ماہی‘ اور دیگر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اِکا دُکا فلمیں پنجابی، پشتو اور ایک فلم بلوچی زبان میں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی، لیکن انہیں باکس آفس پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔

رواں سال کی بدترین فلموں میں سرِفہرست تین فلمیں شامل ہیں۔ پہلی فلم سید نور کی ’چین آئے نہ‘ دوسری فلم ساحر لودھی کی ’راستہ‘ اور تیسری فلم شُعیب منصورکی ’ورنہ‘ ہے۔ ہدایت کار سید نُور کی فلم جس خاموشی سے ریلیز ہوئی، اسی خاموشی سے اسکرین سے رخصت بھی ہوگئی۔ سید نور ماضی میں ایک باصلاحیت ہدایت کار رہے ہیں، مگر اُنہیں اب بدلتے ہوئے سینما کی روش میں خود کو تبدیل کرنا ہوگا اور اپنے موضوعات اور تکنیکی رویے میں تبدیلی لانی ہوگی ورنہ زمانہ قیامت کی چال چل جائے گا، جس طرح اُن کے ساتھ رواں سال ہوا۔

ہدایت کار ساحر لودھی تو اپنی فلم کی ناکامی پر اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ جن صحافیوں نے ان کی فلم پر تنقید کی تھی، ان کے خلاف ٹیلی وژن پرایک دھواں دھار پریس کانفرنس کر ڈالی، مگر ان کی توانائی کسی کام نہ آسکی، فلم کو ناکام ہونا تھا اور وہ ہوئی، ناکامی کی وجہ فلم کا غیر معیاری ہونا تھا۔

ہدایت کار شعیب منصور شاید این جی او ایجنڈا سوچ میں پھنس گئے ہیں، موضوع کی مشکل پسندی اور یکسانیت ان کے دیگر مثبت پہلوؤں کو بھی لے ڈوبی۔ پہلی دو فلموں ’خدا کے لیے‘ اور ’بول‘ میں اُن کا یہ فارمولا چل گیا، مگر اب فلم بین سمجھ دار ہوگئے ہیں اس لیے ان کی تازہ ترین فلم بُری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔

رواں برس کی ایک اور اہم فلم ’چلے تھے ساتھ‘ تھی، جسے باکس آفس پر تو زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی، لیکن اس میں ایک نیاپن ضرور تھا۔ پاکستان اور چین کی دوستی کے تناظر میں بنائی جانے والی اولین فلم کے طور پر بھی اسے یاد رکھا جائے گا۔ اِس فلم میں چینی نژاد کینڈین اداکار ’کینٹ ایس لیونگ‘ نے بطور ہیرو اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔

پاکستان میں قائم کردہ آسکر کمیٹی نے رواں برس کی پاکستانی فلموں میں سے فلم ’ساون‘ کا نام آسکر اکیڈمی کو بھیجا۔ اس فلم کا موضوع ایک پولیو زدہ بچہ اور اس کی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات ہیں۔ یہ ایک چھوٹے بجٹ کی عمدہ فلم تھی، مگر افسوس یہ کہ باکس آفس پر ناکامی کے ساتھ ساتھ یہ فلم آسکر اکیڈمی کو بھی متاثر نہ کرسکی اور یوں یہ فلم آسکر ایوارڈز کی بہترین غیر ملکی فلم کی کیٹیگری میں اپنی جگہ نہیں بنا پائی۔

اسی طرح ایک فلم ’پروجیکٹ غازی‘ بھی ریلیز ہونی تھی، جس کے ہدایت کار نادر شاہ تھے۔ اس فلم کو پہلی پاکستانی سُپر ہیرو فلم قرار دیا جارہا تھا، مگر یہ فلم صرف اپنے پریمیئر شو تک ہی محدود رہی اور تکنیکی وجوہات کی بنا پر تاحال ریلیز نہیں ہوسکی۔

2017 کے ماہ دسمبر میں تین فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جانی تھیں، جن میں سے 2 یعنی ’ارتھ۔دی ڈیسٹینشن‘ اور ’رنگریزہ‘ گزشتہ ہفتے ریلیز ہوگئیں ہیں۔ پہلی فلم کے ہدایت کار شان شاہد جبکہ دوسری فلم کے ہدایت کار عامرمحی الدین ہیں۔ دونوں فلمیں رومانوی موضوعات پر مبنی اور موسیقی کے رنگوں سے مزین تھیں، مگر باکس آفس پر دونوں کو ناکامی حاصل ہوئی ہے، جس کی وجہ دورِ حاضر کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا ہے۔

رواں برس تمام فلموں کی ناکامی کی وجہ کہانی رہی، سوائے ’ارتھ ۔ دی ڈیسٹینشن‘ کے، جس کی کہانی اچھی تھی، مگر موسیقی پر بننے والی فلم میں موسیقیت ہی ناپید تھی۔ اب دسمبر کے اس مہینے میں ریلیز ہونے والی رواں برس کی آخری پاکستانی فلم ’چھپن چھپائی‘ ہے، جس کے ہدایت کار محسن علی ہیں۔ یہ ہلکی پھلکی کامیڈی فلم ہے، اور ایسا لگ رہا ہے کہ اس فلم کو شائقین پسند کریں گے، کیونکہ فلم میں بڑے بڑے ناموں کا سہارا لینے کے بجائے کہانی اور کرداروں پر توجہ دی گئی ہے۔ یہ ایک مثبت رویہ ہے۔

اِسی طرح رواں برس درجنوں غیر ملکی فلمیں بھی پاکستان میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں، انگریزی فلموں میں سرِفہرست ٹام کروز کی فلم ’ممی‘ اور آرنلڈ شواز نیگر کی فلم ’ٹرمینٹر ٹو ججمنٹ ڈے‘ کا تھری ڈی ورژن تھا، جسے فلم کی تخلیق کے 25 سال بعد ریلیز کیا گیا۔ پاکستان میں ریلیز ہونے والی دیگر انگریزی فلموں میں سکھ راج کے آخری شہزادے پر بنائی گئی فلم ’دی بلیک پرنس‘ اور دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں بنائی گئی فلم ’ڈنکرک‘ تھی۔

وکٹورین عہد میں ہندوستانی رخ سے ایک اہم فلم ’وکٹوریہ اینڈ عبدل‘ کو بھی پیش کیا گیا۔ فلم کی کہانی کافی پختہ ہے اور فلم سازی بہت عمدہ، پاکستان میں اس فلم کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ سُپر ہیرو فلم سیریز کی بات کی جائے تو ’ونڈر وُومین‘ ایک اہم فلم ثابت ہوئی، جسے خاصا پسند کیا گیا۔ رواں مہینے میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی فلموں میں، اسٹار وارز، جسٹس لیگ، مڈر آن دی اورینٹ ایکسپریس سمیت جمانجی اینیمیٹیڈ ایڈیشن بھی شامل ہے۔

رواں برس پاکستان میں ریلیز ہونے والی انڈین فلموں میں سب سے بہترین انڈین فلم ’ہندی میڈیم‘ تھی، جس میں پاکستانی اداکارہ صبا قمر نے اپنی شاندار اداکاری سے دونوں ملکوں میں فلم بینوں کے دل جیت لیے۔

ماہرہ خان کی شارہ رخ خان کے ساتھ بننے والی فلم ’رئیس‘ کو پاکستان میں پابندی کا سامنا کرنا پڑا، اسی طرح سلمان خان کی فلم ’ٹائیگر زندہ ہے‘ پر بھی پاکستان مخالف مواد شامل ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی ہے۔

وہ انڈین فلمیں جن کی نمائش پر پاکستان میں پابندی عائد کی گئی۔
دیگر ریلیز ہونے والی انڈین فلموں میں بیگم جان، رنگون، قابل، لکھنؤ سینٹرل وغیرہ شامل ہیں۔ سنجے لیلا بھنسالی کی فلم ’پدماوتی‘ بھی پاکستان میں نمائش کے لیے شیڈول کی گئی تھی لیکن وہ تو ہندوستان میں ریلیز نہ ہو سکی تو پاکستان میں کیا ہوتی، فی الوقت اس فلم کی صورتحال واضح نہیں ہے کہ آیا اس فلم کو پاکستان میں نمائش کے لیے پیش کیا جا سکے گا یا نہیں۔ موضوع کو بھانپنے کے بعد اندازہ یہ ہے کہ اس فلم کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہیں ملے گی۔ رواں مہینے میں ’فُکرے ریٹرنز‘ اور ’فرنگی‘ کی نمائش پاکستانی سینما گھروں میں جاری ہے۔

21 ویں صدی کے آغاز سے لے کر رواں سال تک، پاکستانی فلموں کی مجموعی صورتحال کا اندازہ لگایا جائے، تو اب تک سینکڑوں فلمیں بن چکی ہیں، مگر کامیاب ہونے والی فلموں کا تناسب صرف 10 فیصد ہے۔ سال 2000ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’یہ دل آپ کا ہوا‘ نے 20 کروڑ کمائے، یہ اس وقت کی سب سے بہترین فلم تھی۔ اس فلم کے بعد جن فلموں کو باکس آفس پر زیادہ کامیابی حاصل ہوئی، ان میں 7 سال بعد 2007ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’خدا کے لیے‘، پھر 2011ء میں ’بول‘ 2013ء میں ’وار‘ 2014ء میں ’نامعلوم افراد‘، 2015ء میں ’جوانی پھر نہیں آنی‘، 2016ء میں ’ایکٹر ان لا‘ شامل ہیں۔ یہ وہ چند فلمیں ہیں، جن کی وجہ سے ان 17 برسوں کے دوران فلم سازوں کو معاشی طور پر بھی کچھ مضبوطی ملی۔

اس تناظر میں پاکستانی سینما کی واپسی یا بحالی کی بات کرنا قبل از وقت ہے۔ پاکستانی فلم سازوں کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے، عہدِ حاضر کے سینما میں جہاں فلم بینوں کو دنیا بھر کی فلمیں دیکھنے کے لیے میسر ہیں، وہاں آپ انہیں زیادہ دیر دھوکے میں نہیں رکھ سکتے، اس لیے معیاری اور تخلیقی فلمیں بنانے کی ضرورت ہے اور کہانی نویسی پر بھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یوں نہ صرف پاکستانی فلم بینوں کو تخلیقی تسکین مل سکے بلکہ عوامی شعور کے فروغ میں بھی پاکستانی سینما اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرسکے۔

پاکستانی چینلوں نے ایک وطیرہ بنا لیا ہے کہ فلم کوئی بھی بنائے، یہ نہ صرف میڈیا پارٹنر کے طور پر اس منصوبے میں شامل ہوجاتے ہیں بلکہ اس کو اپنی فلم قرار دے دیتے ہیں، اس مصنوعی رویے سے کچھ نہیں ہوگا۔ فلمی صنعت کو حقیقی معنوں میں فروغ دینے کے لیے میڈیا ہاؤسز کو بھی عملی طور پر تخلیقی اور معاشی عمل میں شریک ہونا پڑے گا، صرف ٹھپہ لگا لینے سے یہ فلمیں ان کی نہیں ہو جائیں گی۔ یہ طریقہ واردات صرف آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، جس کی فلم سازوں کو حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

آخر میں اہم بات یہ کہ پاکستانی سینما کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے، مگر یہ فلم سازوں کی ایمانداری، محنت اور جنون پر منحصر ہے، وہ تخلیق اور دیوانگی کے راستے پر کہاں تک جا سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے