مجلس احرارِ اسلام کے88سال

۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۹ء کو مجلس احرارِ اسلام کے نام سے ایک قافلۂ لاہور میں تشکیل پایا تھا۔امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، چودھری افضل حق، مولانا سید محمد دائود غزنوی، شیخ حسام الدین، خواجہ عبدالرحمن غازی اور مولانا مظہر علی اظہر جیسے سربکف، جاں باز مجاہدوں نے اس انقلابی جماعت کی بنیاد رکھی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ دین کے متوالوں اور آزادی کے علم برداروں نے علی برادران کی برپا کردہ تحریک خلافت میں خوب دادِ شجاعت دی اور تحریک ِ خلافت کی ناکامی کے بعد دل برداشتہ اور مایوس ہونے کی بجائے عزمِ کامل اور پوری جرأت و شجاعت کے ساتھ حریّتِ اسلامی اور آزادیٔ وطن کا علم بلند کیا۔

حضرت امیر شریعت نے تاسیسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ مسلمان نوجوان ہندوستان کی آزادی کا ہراول دستہ ثابت ہوںاور آزادی کے حصول کا فخر ہمارے حصے میں آئے۔‘‘ ممبئی میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’غلامی بہت بڑا گناہ ہے، اگر اس گناہ سے نکلنا ہے تو اس سے بہتر کوئی موقع نہیں کہ ہم انگریزوں کے خلاف پُرامن لڑائی میں شامل ہو جائیں۔‘‘ موچی دروازہ لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’استبداد کی چکی کا دستہ گورے کے ہاتھ میں ہو یا کالے کے ہاتھ میں چکی وہی رہتی ہے اور میں اِس چکی کو توڑ دینا چاہتا ہوں۔‘‘ قافلۂ احرار، انگریزی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی حیاتِ عزیز کا کل اثاثہ جمع کر کے میدانِ کارزار میں اترا، صفیں درست کیں، کفن بردوش، سرخ پوش مجاہد، سرخ پرچم ہاتھوں میں تھامے، بغاوت کی لے پر شہادت کے گیت چھیڑ کر جادہ پیما ہوئے۔

ہیں احرار پھر تیز گام اللہ اللہ ہوئی تیغِ حق بے نیام اللہ اللہ حضرت شاہ ولی اللہؒ،حضرت سید احمد شہیدؒ، حضرت محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت شیخ الہند محمود حسن ؒاور حضرت نانور شاہ کشمیریؒ کے فکر و درد کو لے کر ذرا آگے بڑھے تو انگریز اپنے تمام تر ظلم و استبداد اور قہر سامانی کے ساتھ مقابلے پر سامنے موجود تھا۔ انگریز، اُس کے ٹوڈی سرکاری مسلمان، جاگیردار اور قادیانی گروہ کے خلاف انھوں نے چومکھی جنگ لڑی۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اس دینی، قومی اور وطنی جدوجہد میں مصائب و مشکلات کی گھاٹیوں کو پوری جرأت و شجاعت، عزم و ہمت اور صبر و استقامت کے ساتھ عبور کیا۔ آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اپنی دینی شناخت کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس کی پوری پوری حفاظت کی۔ ڈیڑھ درجن سے زائد قومی و ملّی تحریکوں کو پروان چڑھایا۔ یہ حقیقت ہے کہ ابناء امیر شریعت نے بقائِ احرار کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ خصوصاً جانشینِ امیر شریعت حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ نے اعتقادی و فکری بنیادوں پر احرار کو مضبوط و منظم کیا۔ لٹے ہوئے قافلے کو پھر سے تشکیل دے کر اس امانت کی حفاظت کا حق ادا کیا۔

ابن امیر شریعت مولانا سید عطاء المحسن بخاریؒ کے انتقال کے بعد جماعت کی امارت حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری کے سپرد ہوئی۔ قافلۂ احرار اُن کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ تحریک مقدس تحفظ ختمِ نبوّت، مجلس احرارِ اسلام کی پہچان تھی اور ہے۔ ۱۹۳۰ء میں قادیانیت کے عوامی محاسبے کا آغاز کیا اور شعبۂ تبلیغ تحفظ ختمِ نبوّت قائم کر کے ایک منظم جدوجہد کی۔ تحریک تحفظ ختمِ نبوّت ۱۹۳۴ء (قادیان) اور ۱۹۵۳ء میں بے پناہ قربانیاں دیں، شہدائِ ختمِ نبوّت کا خون رنگ لایا اور ۱۹۷۴ء میں فتح و کامرانی کا سورج طلوع ہوا۔ عوامی جدوجہد پارلیمنٹ میں پہنچی اور قادیانیوں کو پاکستان کے آئین میں غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ ۱۹۸۴ء میں مزید پیش رفت ہوئی، قانون امتناعِ قادیانیت بنا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی حقیقی آزادی وخود مختاری کے لیے نوجوان ہراول دستہ بنیں، عالمی استعمار کی غلامی کے خلاف پر امن جد وجہد تیز تر کردیں اور استبداد کی چکی توڑ ڈالیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے