نیا سال اور وقت کا بندھن

یہ تو دن ہی کچھ ایسے ہیں کہ دل پر گھٹا سی چھائی رہتی ہے۔ ایک سال گزر گیا۔ ایک نیا سال آپ کے سواگت کو کھڑا ہوا ہے۔ وقت سے ہم سب کا ایک اپنا ہی رشتہ ہوتا ہے۔ کبھی صبح کرنا شام کا ایک عذاب بن جاتا ہے۔ کبھی دن پلک جھپکتے میں گزر جاتے ہیں۔ زندگی دکھ اور سکھ کی دھوپ چھائوں میں گزرتی چلی جاتی ہے۔

یہ سارا عمل ایک ایسی پہیلی ہے کہ جسے پوچھنے کی فلسفی اور شاعر مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں۔ نئے سال کی آمد ایک ایسا موقع ہوتا ہے کہ جب لوگ اس تذبذب اور حیرانی کو کسی تقریب یا جشن کی صورت میں مناتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ میں اس کیلنڈر کی بات کررہا ہوں جو بڑی حد تک پوری دنیا میں رائج ہے۔ لیکن نیا سال مختلف تہذیبوں میں مختلف موسموں میں منایا جاتا ہے۔

ایران اور چند پڑوسی ملکوں میں نیا سال بلکہ نو روز بہار کی آمد کا پیغام دیتا ہے اور اس کی رسومات ایک ہفتے سے زیادہ دنوں پر محیط ہوتی ہیں۔ کیونکہ میں نے اسلامی نقلاب کے بعد منائے جانے والے دوسرے نو روز کے دن تہران میں گزارے اس لئے مجھے اندازہ ہے کہ قدیم رسومات کیسے اجتماعی زندگی کے خون میں گردش کرتی ہیں اور کسی ناصح کی سرزنش سے بالکل متاثر نہیں ہوتیں۔ چین میں نیا سال کس طرح منایا جاتا ہے اس کی ایک الگ داستان ہے۔

یہ نیا سال چین کے قمری کیلنڈر کے تابع ہے اس لئے اس کی تاریخ ہر سال بدل جاتی ہے۔ لیکن اس کیلنڈر کا شمسی نظام سے بھی کچھ ایسا تعلق ہے کہ ہر سال فروری کے مہینے کے ابتدائی دنوں میں نیا سال شروع ہوتا ہے اور اسے موسم بہار کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دفعہ چین کا نیا سال 16فروری کو شروع ہوگا۔

گزشتہ سال اس کا آغاز 28جنوری کو ہوا تھا۔ چین کا کیلنڈر مغربی یعنی گریگورین کیلنڈر سے بھی قدیم ہے۔ نئے سال کی تقریبات 23 دن تک جاری رہتی ہیں۔ ہماری عید کی طرح چینی نئے سال کو اپنے آبائی گھر میں جمع ہوتے ہیں اور اس دن کے عشایئے کو سال کی سب سے اہم اور بڑی ضیافت سمجھا جاتا ہے۔ آپ انتظار کریں، 16 فروری کے بعد آپ ٹیلی وژن پر چین کی نئے سال کی رنگا رنگ تقریبات دیکھ کر شاید حیران رہ جائیں گے کہ پوری قوم کیسے اپنا تہوار مناتی ہے۔

جاپان میں مغربی کیلنڈر کے حساب سے نیا سال منایا جاتا ہے۔ تین دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں اور جشن میں جاپان کی اپنی تہذیبی رسومات کا رنگ کافی گہرا ہوتاہے۔اس تناظر میں ہم تو اس نئے سال سے کسی جوش و جذبے کے ساتھ بغل گیر ہونے کا لطف بھی حاصل نہیں کرپاتے۔

ایک زمانہ تھا جب نئے سال کے جشن آزادانہ منائے جاتے تھے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ جب میں جوان تھا تو نئے سال کی سرگرمیوں میں شامل رہتا تھا۔ نیو ایئر پارٹی اپنی جگہ، خاص توجہ اس بات پر ہوتی کہ آنے والے سال کے لئے اپنے آپ سے کیا وعدے کئے جائیں۔ جسے آپ ریزولوشن کہیں۔ گزرے ہوئے سال کے وعدوں کی پامالی سے قطع نظر، یہ آرزو یا امنگ پھر زندہ ہوجاتی تھی کہ اس دفعہ ہم ضرور اپنے وعدے پورے کریں گے۔ ایک فہرست بنتی کہ فلاں کام کریں گے۔ فلاں عادت چھوڑ دیں گے۔

دل ہی دل میں بھی کچھ منصوبے بنتے کہ جو راز میں رہتے۔ اب بہت سالوں سے ایسے تمام شوق دم توڑ چکے ہیں۔ موجودہ دور کے حالات مختلف ہیں۔ نئے سال کی آمد پر خاص طور پر کراچی میں جس طرح نوجوانوں کی خوشیوں پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں اس کی منطق سمجھ سے باہر ہے۔ ساحل سمندر اور اس کے اطراف کے علاقوں پر جیسے دشمن فوجوں کا قبضہ ہوجاتا ہے کہ کہیں نوجوان غل غپاڑا نہ کریں کہ جسے مجرمانہ سرکرشی سمجھا جائے۔

متوسط اور غریب طبقے کے نوجوانوں پر بندشیں عائد کرنا یوں بھی ہمارے معاشرے کا وتیرہ ہے اور ہاں، میں ان نوجوانوں میں لڑکیوں کو بھی شمار کررہا ہوں کہ جن کی محرومیوں کا اظہار آئے دن ہمیں دل دکھانے والی خبروں میں مل جاتا ہے۔ ویسے ایک خبر یہ تھی کہ اس دفعہ نئے سال کی آمد پر پرانی پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔ اس خبر کی حقیقت کل یعنی اتوار کی شام واضح ہوجائے گی۔نیا سال دنیا میں کس طرح منایا جاتا ہے اور ہم اسے کس طرح مناتے ہیں اس سے الگ ایک سچی بات یہ ہے ک ان دنوں وقت گزرنے اور حالات کے تبدیل ہوتے رہنے کا احساس بہت گہرا ہوجاتا ہے۔ پھر میڈیا میں گزرے ہوئے سال کے بے شمار جائزے ہماری سوچ اور ہماری یادئوں کو جگاتے رہتے ہیں۔

فہرستیں بنتی ہیں کہ اس سال کس شعبے میں کیا کارنامے کئے گئے۔ عالمی سطح پر کیوں کہ اس سال کو ٹرمپ کا سال سمجھا گیا اس لئے ایک طرح کی نحوست کا اس پر سایہ رہا۔ چند اچھی خبریں بھی ڈھونڈی جاسکتی ہیں۔ ہم نے کرکٹ کے میدان میں انڈیا کو ہرا کر ایک شاندار فتح حاصل کی اور کئی دن ہمارا دل بہلا رہا۔ البتہ ایسی خبریں بھی تھیں جن کا دکھ تادیر ہمیں پریشان کرےگا۔

میں قومی معاملات کے بارے میں بات کررہا ہوں اور ایک وزیراعظم کی نااہلی سے زیادہ اہم میری نظر میں وہ پسپائی ہے جو حکومت پاکستان نے فیض آباد انٹر چینج پر اختیار کی۔ سیاست ہمارے اعصاب پر سوار ہے اور اب آنے والے سال میں ہمیں انتخابات کا طوفان اٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔ سال کے آخری مہینے میں کئی دن یادوں کے نشتر سے ہمیں زخمی کردیتے ہیں۔ جیسے 16 دسمبر کے دو سانحے اور 27 دسمبر کو اس سال بے نظیر بھٹو کے قتل کو ایک پوری دہائی گزر گئی۔

وقت کتنی تیزی سے گزر رہا ہے اور ہم کہاں جارہے ہیں۔ لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ نئے سال کی آمد کے موقع پر ہم ملک کے حالات کے بجائے اپنی ذاتی زندگیوں کو نظر میں رکھیں تو بہتر ہے۔ مطلب یہ کہ مایوس ہونے کے بجائے امید کا دامن تھامے رہیں۔ آپ اسے ایک تضاد کہہ لیں کہ ملک کے حالات کے بارے میں سوچ کر ہمارا دل کتنا ہی کیوں نہ دہلتا ہو، اپنی ذاتی زندگی اور اپنے عزیزوں کی جو تصویریں ہمارے ذہن میں بنتی ہیں ان میں خوشیوں کا رنگ جھلملاتا ہے۔

یہ اقرار بھی مجھے کرنا ہے کہ گزرنے والا سال میرے اپنے لئے بہت سازگار تھا۔ کئی سفر کئے اور کئی بار ایک بکھرا ہوا چھوٹا سا خاندان یکجا ہوا۔ دنیا میں کچھ بھی ہوتا رہے۔ یہی زندگی کا سب سے بڑا انعام ہے کہ آپ کے رشتے استوار ہیں اور آپ کی محبتوں میں وفا قائم رہے۔ ایک نیا سال شروع ہورہا ہے تو اپنے لئے اور آپ کیلئے بھی یہی دعا ہے کہ ہمیں اپنے حصے کی مسرتیں حاصل رہیں اور اپنے عزیزوں کی رفاقت ایک بے رحم دنیا سے نباہ کرنے میں ہماری مدد کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے