چین : معیشت اور معاشرت

گزشتہ تین دہائیوں میں دوسری عالمی معاشی طاقت کے طور پر چین کے ابھار نے اس بحث کو شدید تر کر دیا ہے کہ آیا یہ ابھار ‘سوشلزم‘ کی وجہ سے ممکن ہوا یا مسخ شدہ سرمایہ داری کی وجہ سے۔ اس معاشی طاقت اور سپر پاور کے حیرت انگیز ابھار کی بنیاد 1949ء کے بعد ہونے والی سماجی و معاشی تبدیلی اور منصوبہ بند معیشت تھی۔ ڈینگ ژیائو پنگ کا بیان کہ ”امیر بننا شاندار کام ہے‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح لوٹ مار کی خاطر سرمایہ دارانہ بحالی کے ذریعے افسر شاہانہ ٹولے نے یہ دیوہیکل برتری سامراجیوں کو بیچ دی۔

جدید تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ معیشت کی وسیع ریاستی ملکیت کے باوجود بھی ریاست سرمایہ دارانہ ہو سکتی ہے جیسے ہندوستان میں نہروئین سوشلزم‘ جس میں 74 فیصد معیشت ریاست کے پاس تھی۔ معیشت کو قومیانے کے بعد یہی کیفیت 1970ء کی دہائی میں پرتگال کی تھی۔ لیکن ان ممالک میں معیشت کی سوشلسٹ تکمیل کا عمل کبھی مکمل نہیں ہوا۔ دوسری طرف چند ‘سوشلسٹ ریاستوں‘ میں معیشت کی درمیانی اور نچلی پرتوں کے بڑے حصوں کو نجی ملکیت میں رکھا گیا جبکہ ریاست کا کردار پھر بھی ‘سوشلسٹ‘ ہی رہا۔ آج رائول کاسترو کے کیوبا میں معیشت کے مخصوص حصوں کو کھول دیا گیا ہے لیکن بنیادی ساخت اب بھی افسر شاہانہ کنٹرول کی حامل منصوبہ بند معیشت والی ہے۔

مائوزے تنگ اور چو این لائی کی موت کے بعد ڈینگ ژیائو پنگ کے 1978ء میں پارٹی کے اندر ایک کُو سے سرمایہ دارانہ بحالی کا ردِ انقلاب عمل شروع ہوا۔ ڈینگ بالشویک رہنما نکولائی بخارین کا پیروکار تھا، جس کا مؤقف تھا کہ 21 سامراجی ممالک کی جارحیت، اقتصادی ناکہ بندی، قحط، بدحالی اور مشکلات سے نمٹنے کے لیے سوویت معیشت کو سرمایہ دارانہ کمپنیوں کے لیے کھولا جائے۔ نیو اکنامک پالیسی کی تشکیل کے دوران لینن، ٹراٹسکی اور بالشویک قیادت کی اکثریت نے بخارین کے اس دائیں بازو کے مؤقف کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ ڈینگ کو بھی 60ء کی دہائی میں مشکلات کے حل کے لیے سرمایہ داری کی طرف واپسی کی وکالت پر مائو کی جانب سے تنقید اور قید و بند کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اب چین کی معیشت افسر شاہانہ جبر کی وجہ سے سست روی کا شکار تھی اور وہ اقتدار میں تھا۔ ڈینگ کی اصلاحات کے نتیجے میں چین‘ سرمایہ داری مخالف منصوبہ بند معیشت کے حامل ملک سے نجی ملکیت، منافع اور آزاد منڈی کی معیشت کے حامل ملک میں تبدیل ہو گیا۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے مشرقی ساحل کے ساتھ سپیشل اکنامک زون قائم کیے گئے۔

آج شنگھائی سٹاک ایکسچینج مارکیٹ کیپیٹلائزیشن کے حساب سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ تمام تر بڑے شہروں میں چیمبرز آف کامرس موجود ہیں۔ اجناس اور خدمات کی منڈی چین میں غالب ہے۔ کاروباری ایجنٹس حکومتی کنٹرول سے قدرے آزادی سے آپس میں رابطہ رکھتے ہیں۔ چین میں پہلے ہی تقریباً 95 فیصد اشیائے صرف کی قیمتوں کا تعین منڈی کرتی ہے جبکہ متعدد علاقائی اور باہمی آزاد تجارتی معاہدے بھی ہیں۔ سامراجی مالیاتی اداروں نے چین کی سربراہی میں بنے نئے عالمی بینک ‘ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک‘ کی توثیق کی ہے۔ چین میں ریاستی ملکیت کی حامل کمپنیاں معیشت کے بڑے حصے کو تشکیل دیتی ہیں لیکن اس کے باوجود نجی شعبے کا حصہ جی ڈی پی اور بحیثیت مجموعی پیداواریت میں زیادہ بڑا ہے۔

وسیع ریاستی سرمایہ کاری اور ٹیکس چھوٹ کے باوجود ریاستی ملکیت کی حامل انٹرپرائزز (SOEs) کا صنعتی پیداوار میں حصہ 2006ء سے تقریباً 30 فیصد ہے۔ زیادہ تر اشاریوں کے اعتبار سے چین کی سرمایہ دارانہ بحالی معیاری تبدیلی کی حالت میں پہنچ چکی ہے۔ اب یہ کوئی منصوبہ بند یا سوشلسٹ معیشت نہیں ہے، اگرچہ وسیع ریاستی وسائل اور معیشت کے اہم شعبوں پر دیوہیکل اور منافع بخش ایس او ایز (SOEs) کے کنٹرول کے ذریعے ریاست کے پاس وسیع طاقت موجود ہے۔ لیکن چین کا معاشی ابھار عالمی سرمایہ داری کے زوال کے عہد میں ہو رہا ہے یعنی چین کبھی بھی ایک ‘نارمل‘ یا ‘صحت مند‘ سرمایہ دارانہ معیشت نہیں بن سکتا ہے‘ نہ ہی چینی افسر شاہی کلاسیکل مغربی بورژوا بن سکتی ہیں۔

نومبر کی پارٹی کانگریس میں صدر شی چن پنگ نے ایک دفعہ پھر آئین میں ”چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم‘‘ کو شامل کیا۔ یہ کارپوریٹ سرمائے کی مداخلت سے چین میں تضادات اور سماجی کشمکش میں شدت کے خوف کی علامت ہے‘ جو ریاستی کنٹرول سے باہر نکل سکتی ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ چین شاید دنیا میں واحد ملک ہے جو بیرونی دفاع سے زیادہ اندرونی سکیورٹی پر خرچ کرتا ہے۔
زیادہ تر مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی تیز معاشی اور تکنیکی ترقی سے پیدا ہوئی 50 کروڑ کے لگ بھگ وسیع مڈل کلاس اشیائے صرف کے لیے روز افزوں منڈی مہیا کرے گی۔ شی چن پنگ کو بھی انہی سے سماجی استحکام کی امید ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اگر معیشت کی نمو جاری رہی تو شی چن پنگ کی حکومت نومولود سماجی بے چینی پر قابو پا کر ناگزیر انقلاب کو کچھ وقت کے لیے ٹال دے۔ لیکن تمام تر قرضے کی بنیاد پر ہونے والی سرمایہ کاری اور ریاست کی جانب سے پیسے لگانے کے باوجود چینی معیشت میں بحالی کے بہت کم امکانات ہیں‘ جو 2007ء کی 14 فیصد شرح نمو سے گر کر 2016ء میں 6.8 فیصد تک پہنچ گئی۔

نوے کی دہائی سے لے کر اب تک ہوئی معاشی نمو کے باوجود استحصال کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور غریب اور امیر کے درمیان فرق مزید بڑھ رہا ہے۔ بالخصوص شہری و دیہی اور اندرونی و ساحلی علاقوں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے۔ شہری مزدوروں کو بھی غیر مناسب رہائش، طویل سفر اور زیادہ اوقات کار جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ سرکاری اہلکاروں کی لالچ اور لوٹ مار کی وجہ سے مزدوروں میں نفرت پائی جاتی ہے۔ چین میں غربت بھی ہے۔ تقریباً 50 کروڑ چینی عوام 2 ڈالر یومیہ سے کم اور کم از کم 80 کروڑ 20 لاکھ لوگ یومیہ 5 ڈالر سے کم پر زندگی گزارتے ہیں۔ 85 فیصد غریب دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جس کا 66 فیصد ملک کے مغربی حصے میں مرتکز ہے۔ اقلیتی قومیتوں میں بھی بے چینی ہے۔ تبت سے لے کر سنکیانگ تک احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ چینی شہروں میں مہاجر مزدوروں کے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے۔ زمینوں پر پراپرٹی سٹے بازوں اور کمیونسٹ پارٹی یا پیپلز لبریشن آرمی کی ملی بھگت سے قبضے کیخلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس غم و غصے اور بے چینی کو ختم کرنے کے لیے شی چن پنگ نے کرپشن کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا ہے۔

لیکن چین کے ابھار کے ساتھ 30 کروڑ کے لگ بھگ، بیشتر دیہی آبادی کے لوگ چینی پرولتاریہ کا حصہ بن گئے ہیں۔ جنہیں بدترین حالات کار میں کام اور کربناک حالات میں زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ سرمایہ دارانہ بحالی سے پہلے مائو کے ‘آئرن رائس بائول‘ نظام کے تحت حتیٰ کہ اکثر دیہاتیوں کو بھی نرسریوں، کنڈر گارٹن، پنشن اور تعلیم تک کھلی رسائی حاصل تھی۔ اب زیادہ تر مزدوروں کو بنیادی ضروریات کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں اور محنت بھی ایک جنس بن گئی ہے۔ مقابلے کے باعث کارپوریٹ مالکان اخراجات اور اجرتیں کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالات کار سخت، خطرناک ہیں۔ صنعتوں کا بے تحاشا منافع مزدوروں کے بے دریغ استحصال سے ہے۔ ہڑتالوں کی تعداد اور مزدوروں کی جدوجہد کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ 2016ء میں ہڑتالوں کی لہر میں ہڑتالیوں کی شرکت 2015ء سے زیادہ تھی۔ ہزاروں ہڑتالوں میں لاکھوں مزدور شریک ہوئے۔ مالکان کو مجبوراً رعایتیں دینا پڑیں، تنخواہوں میں واضح اضافہ ہوا۔ مزدور ہڑتال پر جاتے وقت یقینی بناتے ہیں کہ کوئی دوسرا ان کی جگہ کام نہ کرے۔ وہ یہ کام فیکٹری پر قبضے کے ذریعے کرتے ہیں‘ لیکن ہر جگہ کی طرح اکثر مزدور کام پر واپس آ جانے کے بعد رعایتیں واپس لے کر مزدور رہنمائوں کو گرفتار یا بعض اوقات غیر قانونی طریقے سے غائب کر دیا جاتا ہے۔ تمام تر جبر کے باوجود مزدوروں کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔ آج چین میں دنیا کا سب سے بڑا پرولتاریہ ہے جو پورے یورپ اور شمالی امریکا سے زیادہ ہے۔ جلد یا بدیر یہ الگ الگ ہڑتالیں اور نوجوانوں کی سوچ ،ایک انقلابی تحریک میں ڈھل جائیں گی۔ چین کا سوشلسٹ انقلاب پورے سیارے کے لیے انقلابی نتائج کا حامل ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے