پیار کہیں کھو سا گیا ہے

کوکب جہاں

کراچی

——-

Dekh-Magar-Pyaar-Se-poster

فلم دیکھ مگر پیار سے چودہ اگست کو سیمناؤں کے پردوں پر لگادی گئی۔

یہ فلم دراصل ایک رومینٹک کامیڈی جس میں ہیرو ، سکندر بادشاہ خان (سکندر رضوی) ایک رکشہ ڈرائیور ہے اور ہیروین عینی (حمائمہ ملک) ایک نوسر باز ہے جو اپنے باپ کے مرنے اور ماں کی دوسری شادی کے بعد لوگوں کو بے وقوف بنا کر رقم لوٹنے کا کام شروع کردیتی ہے۔

فلم کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ سکندر ابنے چاچا (عرفان کھوسٹ ) کی گرل فرینڈ کو رکشہ میں اس کے پاس لا رہا ہے۔ لڑکی عینی ہے جو راستے بھر اپنی اداؤں اور باتوں سے سکندر کے دل میں ایک جگہ پیدا کرلیتی ہے اور وہ اس کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ بہرحال چاچا کی ورکشاپ پہنچ کر پتا چلتا ہے کہ جس لڑکی کا چاچا انتظار کررہا تھا وہ عینی نہیں ہے۔ اس ہی دوران ایک فون بحتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ چاچا کی گرل فرینڈ اغوا ہوگئی ہے جسے چھڑانے کے لئے چاچا کو دس ہزار روپے تاوان دینا ہوگا۔ بس پھر کیا تھا عینی سکندر کے ساتھ رقم لے کر چاچا کی گرل فینڈ کو لانے نکلتی ہے اور راستے میں دس ہزار روپے لے کر غائب ہوجاتی ہے۔ سکندر اپنے چاچا کے پیسے لوٹانے اور اپنے دل کے ہاتھوں مجبور عینی کو ڈھونڈنا شروع کرتا ہے اور بالاخر ایک جگہ اسے وہ مل ہی جاتی ہے۔ یہاں سے وہ سکندر کے ساتھ مل کر لوگوں سے پیسہ بٹورنے کا کام شروع کرتی ہے۔ اس کام کے دوران سکندر اپنا بدلہ لینے کی سوچتا رہتا ہے جبکہ عینی ایک بار بھر اسے دھوکہ دینے کی کوشش کرتی ہے۔ اس سب لوٹ مار میں اصلی پیار تو کہیں کھو ہیجاتاہے اور صرف پیار سے دیکھنے کی ہی ایکٹنگ ہوتی رہتی ہے۔

فلم میں عینی کا کردار ایک بظاہر ایک لا ابالی مگر اندر سے ایک ہوشیار لڑکی کا ہے، جس کو یقین ہوتا ہے کہ وہ کسی سے کچھ بھی کرواسکتی ہے۔ اس ہی لئے وہ بار بار ہیرو سے یہ کہتی ہے کہ ‘ تمہیں پتا ہے کہ میں تم سے کچھ بھی کرواسکتی ہوں۔’

سکندر کا کردار خوابوں کی دنیا میں رہنے والے شخص کا ہے جو ہر وقت کسی نہ فلم میں ہیرو کا رول ادا کررہا ہوتا ہے۔

فلم تکنیکی اعتبار سے اچھی تھی مگر آرٹ کہیں کہیں کمزور تھا۔ مثلا رنگ اچھے تھے تو کیمرہ متاثر کن نہیں تھا، لباس اور میک اپ اچھا تھا تو مکالمے پھیکے تھے۔ اداکاری اچھی تھی تو سٹوری بورڈ میں جان نہیں تھی۔

بہر حال اس فلم سے سکندر رضوی نے متاثر کن اداکاری سے اپنی ایک شناحت بنالی ہے، جبکہ حمائمہ ملک اس سے بہتر اداکاری کرسکتی تھیں اور کرتی رہی ہیں۔ ممکن ہے اس فلم میں زیادہ میک اپ کی وجہ سے ان کے چہرے کے تاثرات نمایاں نہیں ہوسکے۔ جن سینز میں ان کا میک اپ کم اور کپڑے ہلکے تھے اس میں وہ اچھی اداکاری کرتی نظر آئیں۔

فلم کے ہدایتکار اسد الحق ہیں جن کی یہ پہلی فلم ہے ۔ پہلی فلم کے لحاظ سے تو ان کو چھوٹ دی جا سکتی ہے لیکن مستقبل میں ناظرین ان سے بہتر کام کی توقع رکھتے ہیں۔

عکس بندی یا کیمرہ اچھا ہوسکتاتھا خاص طور پر فریمنگ۔ کلوز اپس کی بھرمار تھی۔ ایک لانگ شاٹ کے بعد اچانک کلوز اپ کا آجانے سے فلم کا تسلسل ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔

فلم کی کہانی کہیں کہیں بھارتی فلوں سے متاثر لگتی ہے۔ کہانی پہلے ہاف تک دلچسپ تھی مگر دوسرے ہاف میں کمزور مکالموں کی وجہ سے دلچسپی کم ہوتی دکھائی دی۔

فلم میں حقیقی لوکیشنز کو ایک سیٹ کی طرح استعمال کیا گیا تھا جو پاکستانی فلموں کے لئے ایک اچھوتا خیال ہے۔ فلم کے رنگ بہت جاندار تھے اور لاہور کی سڑکوں کو خوبصورت رنگوں کے استعمال سے ایک تخیلاتی دنیا بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اسدالحق اس سے پہلے اشتہاری فلموں میں بھی اس طرح کی روشنی اور رنگوں کا استعمال کرچکے ہیں۔

فلم میں لباس حسن شہریار کے تیار کردہ تھے جو فلم کے جاندار رنگوں کے ساتھ سکرین کی مزید پر کشش بنارہے تھے.

فلم میں ایک آئٹم نمبر ‘کالا ڈوریا’ بھی تھا جو آمنہ الیاس پر فلمایا گیا تھا مگر انتہائی مختصر دورانیے کی وجہ سے کوئی خاص تاثر نہ چھوڑ سکا۔

فلم کے نام کی طرح اس کے مختلف سین کو بسوں اور ٹرکوں پر لکھے گئے جملوں سے عبارت کیا گیاہے، جیسے فاصلہ رکھیں، کہیں پیار نہ ہوجائے ، ہنسی تو پھنسی اور محبت اندھی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔

فلم کا اختتام مبہم ہے اور ایسا لگتا ہے کی پروڈیوسر اس فلم کا دوسرا پارٹ بنانا چاہتے ہیں۔ مگر اگلی دفعہ ذیادہ محنت سے بہتر کام کرناہوگا۔

یہ فلم باکس آفس پر اب تک تقریبا سوا دو کروڑ کا بزنس کرچکی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے