اپنے بھی خفا بیگانے بھی ناخوش

’’مجھے نواز شریف سے اختلاف ہے‘‘ میں نے شکوہ لکھا تھا جواب شکوہ تو آنا ہی تھا۔ دو امبر سری (امرتسری) ردعمل آئے۔ صبح دم جاتی عمراء سے میاں نواز شریف نے گلہ کیا اور پھر میرے شکوے کے جواب دیئے۔ دوپہر کو محترمی عطاء الحق قاسمی نے پورا جوابی کالم لکھ ڈالا۔ کہاں میں اور کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ ان کے خیالات اقتدار میں بھی وہی تھے اور آج اقتدار میں نہ ہونے کے بعد وہی ہیں۔ ہاں البتہ بطور وزیراعظم، انہوں نے سب اداروں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا تھا اس لئے کئی معاملات میں ناپسندیدگی رکھنے کے باوجود انہیں برداشت کرنا پڑتا تھا۔ قاسمی صاحب تو قاسمی صاحب ہیں انہوں نے لکھا ’’مجھے بھی نواز شریف سے اختلاف تھا‘‘ اور وضاحت کی کہ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران کئی فیصلوں سے انہیں اختلاف تھا مگر وہ اس کا اظہار نہ کر سکے۔ مگر اب قاسمی صاحب کا وہ اختلاف ختم ہو چکا البتہ انہیں اس کالم نگار سے اختلاف ہے اور انہوں نے اس اختلاف کا ببانگ دہل اعلان بھی کر دیا ہے میں اس پر بھی ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اختلاف کیلئے مجھے چنا ہے۔ جنوری کا مہینہ سیاسی طور پر بھاری ہے اسی میں پاکستان کا اگلا سیاسی منظر نامہ واضح ہونا ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اگر اپوزیشن جنوری میں شہباز شریف کو گرانے میں کامیاب نہیں ہوتی تو پھر فروری میں سینیٹ الیکشن کا گجر بج جائے گا اور گیم شریف خاندان کے اردگرد گھومے گی۔ دوسری طرف اگر جنوری میں دھرنے یا دبائو سے شہباز شریف کو فارغ کر دیا جاتا ہے تو پھر ایک نیا منظر نامہ بنے گا جس کا اہم ترین کردار عمران خان ہو گا تاہم دبائو اور دھرنے سے حکومت گرانے میں بہت سے ’’رِسک‘‘ ہیں اس خونیں کھیل کے اثرات بہت دور رس ہوں گے معصوم افراد کی اموات ہوں گی امن و امان کا مسئلہ ہو گا تب جا کر حکومت گر سکے گی۔

انہی خطرات کی وجہ سے درمیانی راستہ ڈھونڈنے کی کوشش ہو رہی ہے تا کہ صلح صفائی اور مذاکرات کے ذریعے ہی ’’ن‘‘ کو ایسی شرائط پر آمادہ کر لیا جائے جو قومی ایجنڈے کے عین مطابق ہوں۔ ’’نئے اور شفاف‘‘ چہروں کے مجوزہ نظام کے راستے میں نواز شریف گلے کی ہڈی بن چکے ہیں وہ سیاست اور خارجہ پالیسی کے ان حساس پہلوئوں کو کھول رہے ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ بند رکھنا چاہتی ہے۔ نواز شریف نے میرے کالم میں جنرل مشرف کے بیرون ملک جانے پر خاموشی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ عدلیہ کا فیصلہ تھا اور یہ فیصلہ اس طرح سے کیا گیا تھا کہ ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں تھی‘‘۔ کارگل پر کمیشن نہ بنانے کے حوالے سے انہوں نے فون پر مجھے کہا کہ ’’بطور وزیراعظم سب اداروں کو لیکر چلنا ضروری ہوتا ہے اب جبکہ میں اپوزیشن میں ہوں تو اب میرے اوپر کوئی ایسی پابندی نہیں اسلئے میں کھلے عام ان باتوں کا اظہار کر سکتا ہوں‘‘۔ اسی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’’دھرنوں کے دوران ایک خفیہ ادارے کے سربراہ کی حمایت کے واضح ثبوت انکے پاس تھے مگر انہیں بھی طوعاً و کرہاً برداشت کرنا پڑا کیونکہ ملک کو چلانے کیلئے سب اونچ نیچ سے گزرنا پڑتا ہے‘‘۔ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ انکی سیاسی حمایت تیزی سے نیچے آئیگی فارورڈ بلاک بنیں گے اور یوں ایک نئے سیاسی نظام کی بنیاد پڑے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اسکی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ بیرونی و اندرونی خطرات اور فوجی قیادت کی دور اندیشی کی وجہ سے ظالمانہ قوت (Brutal Force)استعمال نہیں کی گئی ماضی میں ظالمانہ قوت استعمال کر کے ہر ناممکن کو ممکن بنا لیا جاتا تھا اس بار ایسا نہیں کیا گیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نا اہلی کے باوجود نواز شریف نے اپنی سیاسی حکمت عملی ایسی بنائی کہ وہ حکومت بھی خود ہیں اور اپوزیشن بھی خود ہی ہیں۔ وہ مظلوم بھی بن گئے ہیں اور فیصلہ سازی بھی ان کی جماعت کے لوگ کر رہے ہیں نا اہلی کے بعد جو سیاسی خلاء عمران خان کو پُر کرنا چاہئے تھا وہ نواز شریف نے خود ہی پُر کر لیا اور ایک نیا بیانیہ تشکیل دے دیا، دوسری طرف اپنے بھائی کو موقع دیا کہ وہ مصالحتی مذاکرات کرے۔ یہ باہر بیٹھ کر دبائو بڑھا رہے ہیں اور شہباز شریف راستہ نکال رہے ہیں اچھے سپاہی اور برے سپاہی والی پالیسی دونوں بھائی بخوبی چلا لیتے ہیں اور دونوں کو سالہا سال سے اس کا تجربہ بھی ہے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے مرکزی حکمت کار جہانگیر ترین کی نا اہلی نے اسے بڑا گھائو لگا دیا ہے ترین انتخابی گھوڑوں کے ساتھ ویلنگ ڈیلنگ میں کامیاب تھے وہ ٹکٹوں کے گارنٹر بھی تھے اب ساری ذمہ داری شاہ محمود قریشی پر آ پڑی ہے۔وہ عمران خان سے کہیں زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے آزمودہ ہیں زمانہ ساز اور تجربہ کار ہیں لیکن وہ پارٹی کارکن سے زیادہ پارٹی لیڈر ہیں اور وہ فیصلے بھی کارکنوں والے نہیں لیڈروں والے کرینگے۔ اگر تو جنوری میں فارورڈ بلاک کے 30لوگ تحریک انصاف کیساتھ نہیں آتے تو پھر تحریک انصاف کو بہت زیادہ زور لگانا پڑیگا۔ آصف زرداری کی جماعت پیپلز پارٹی سالہا سال اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھی مگر اب وہ مکمل طور پر پرو اسٹیبلشمنٹ سیاست کر رہے ہیں انہیں توقع ہے کہ اگر معلق پارلیمان آئی تو اس میں ان کی جماعت کا کردار اہم ہو جائے گا اور یوں انہیں وفاق کے اقتدار میں بھی شیئر مل سکتا ہے وگرنہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے سے کم از کم سندھ تو محفوظ رہے گا۔ ن اور ق کی لڑائی پرانی ہے ن کا سارا زور الیکشن کی طرف جانے میں ہے اور ق کا منظر نامہ یہ ہے کہ اگلے تین سال تک الیکشن نہیں ہو گا بلکہ ٹیکنو کریٹ حکومت ہو گی اور وہ سارا گند صاف کرے گی نئی قیادت لائے گی اور ملک میں ایک نئے سیاسی نظام کی داغ بیل ڈالے گی۔ گو ن اور ق کی سیاست ایک دوسرے کے مخالف رہی ہے لیکن اب دونوں میں ایک نیا نقطہ ٔ اشتراک پیدا ہو رہا ہے اور وہ ہے عمران کی مخالفت۔ ن کا اگلے الیکشن میں ٹارگٹ ہر صورت میں عمران خان کے امیدواروں کو شکست دینا ہے چاہے گجرات یا سرگودھا میں اسے ق لیگ کے امیدواروں کی حمایت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ ق لیگ، عمران خان سے ناراض ہے کہ وہ دھڑا دھڑ ان کے انتخابی گھوڑوں کو توڑ رہا ہے حالانکہ ق لیگ چاہتی تھی کہ ایسا اتحاد کیا جائے کہ ق لیگ کے امیدواروں کو تحریک انصاف کی حمایت مل جائے لیکن عمران خان ایسا کرنے پر آمادہ نہیں اٹک سے چودھریوں کے قریبی عزیز میجر طاہر صادق گروپ کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے پر دوریاں بڑھ چکی ہیں اور اگر سرگودھا سے عامر سلطان چیمہ گروپ کو بھی پی ٹی آئی میں شامل کر لیا گیا تو ق لیگ اور تحریک انصاف میں مکمل طور پر ٹھن جائے گی۔

یہ تھی سیاسی منظر نامے کی ایک سچی تصویر۔ جب ایسی تصویر کھینچی جائے گی تو ظاہر ہے کہ اپنے بھی خفا ہوں گے اور بیگانے بھی ناخوش، مگر کیا کریں سچ نہیں لکھیں گے تو کل شرمسار ہوں گے۔ اس مسئلہ کا کوئی حل دستیابنہیں ہر وقتگویا’’ پل صراط‘‘ پر چلنا ہوتا ہے اِدھر جھکے تو اُدھر سے اعتراض اور اگر اُدھر جھکے تو اُدھر سے اختلاف ہو گا۔ ؎
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے