2017 دہشت گردی میں معمولی کمی‘ خود کش حملوں میں اضافہ‘ سب سے زیادہ حملے بلوچستان میں ہوئے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیوڑٹی سٹڈیز کی سالانہ رپورٹ جاری


2017 دہشت گردی میں معمولی کمی‘ خود کش حملوں میں اضافہ‘ سب سے زیادہ حملے بلوچستان میں ہوئے۔

ضرب عضب کے پہلے دو سال دہشت گردی میں غیر معمولی کمی ہوئی‘ تیسرے برس صورتحال میں خاطر خواہ بہتری نہ آسکی‘ زخمیوں کی تعداد میں اضافہ۔

2015میں 18 اور 2016 ء میں 17 خودکش حملے ہوئے تھے‘ 2017 میں تعداد بڑھ کر 23 ہو گئی‘ دس خود کش حملے بلوچستان چھ خیبر پختونخواہ میں ہوئے۔

فورسز کی کارروائیوں میں بھی کمی ہوئی‘ سب سے زیادہ بہتری خیبر پختونخواہ میں ہوئی ۔

گزشتہ دو برس کے برعکس سال 2017میں دہشت گردی کی وارداتوں میں غیر معمولی کمی نہیں آئی ‘ اس کے برعکس خود کش حملوں کی تعداد میں گزشتہ دو برس سے زیادہ اضافہ ہوگیا‘ بلوچستان میں سب سے زیادہ جنگجو حملے ہوئے‘

ریاست مخالف تشدد پر نظر رکھنے والے آزاد تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فا ر کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز (پکس) کے سال 2017 کے حوالے سے جاری کر دہ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں جنگجوؤں کے حملوں میں 15 فیصد کمی ‘ ان حملوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد میں محض چھ فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ جنگجو حملوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد میں چار فیصد اضافہ ہوا۔

گزشتہ ایک برس کے دورن 23 خود کش حملے ہوئے جو گزشتہ دو برس کے حملوں سے زیادہ ہیں۔ سال 2015 ء میں 18 اور سال 2016 ء میں 17 خودکش حملے ہوئے تھے۔ جنگجو حملوں میں کمی کا رجحان جو آپریشن ضرب عضب کے بعد شروع ہوا تھا اس میں گزشتہ سال بھی کمی ضرور ہوئی تاہم کمی کی شرح کم رہی جس کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ افغانستان میں پاکستان مخالف جنگجووں کی امداد میں پاکستان مخالف قوتوں کی طرف سے واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘ اس کے علاوہ حکومت نیشنل ایکش پلان سمیت انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر بھی پوری طرح توجہ نہیں رکھ پائی۔

پکس (PICSS) کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2017 ء کے دوران مجموعی طور پر 1387 افراد ریاست مخالف تشدد اور جنگجوؤں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کارروائیو ں کے دوران ہلاک ہوئے جن میں 585 عام شہری ‘555 جنگجو‘ اور 247 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں جبکہ 1965 افراد زخمی ہوئے جن میں 1580 عام شہری‘ 331 سیکیورٹی فورسز اہلکار اور 54 جنگجو شامل ہیں۔

جنگجوؤں نے 420 حملے کیے جن میں 912 افراد مارے گئے ‘ ان میں سے 584 عام شہری‘ 225 سیکیورٹی فورسز اہلکار‘ اور103 جنگجو شامل ہیں۔ جبکہ جنگجو حملوں میں 1877 افراد زخمی ہوئے جن میں 1576 عام شہری‘ 271 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 30 جنگجو شامل تھے ‘ دریں اثنا سیکیورٹی فورسز نے 522 کارروائیاں کیں جن میں 475 افراد مارے گئے جن میں 452 جنگجو‘ 22 سیکیورٹی فورسز کے اپنے اہلکار اور ایک عام شہری شامل ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 88 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 60 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار ‘ 24 جنگجو اور چار عام شہری شامل ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے 1760 مشتبہ جنگجو ؤں کو گرفتار بھی کیا۔

سال 2017 میں جنگجوؤں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں ‘ ان کے نتیجے میں جنگجوؤں کی ہلاکتوں اور گرفتاریوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ پکس کے ڈیٹا کے مطابق 2016 ء کے مقابلے میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 113 فیصد‘ جنگجوؤ ں کی ہلاکتوں میں 87 فیصد اور مشتبہ جنگجوؤں کی گرفتاریوں میں 139 فیصد کمی واقع ہوئی ۔ فورسز کی کارروائیوں میں کمی کے باوجود جنگجوؤں کے حملے گزشتہ سال کی نسبت پندرہ فیصد کم رہے جس سے ان کارروائیوں کے مؤثر ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔PICSSڈیٹا کے مطابق 2017ء میں سب سے زیادہ جنگجو حملے بلوچستان میں ہوئے جہاں 183 حملوں میں 308 افراد مارے گئے جن میں سے 208 عام شہری اور 84 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں جبکہ 572 افراد زخمی ہوئے جن میں 443عام شہری‘ اور 129 سیکیورٹی فورسز کے اہکار شامل ہیں۔ سال 2016 ء کے مقابلے میں بلوچستان میں جنگجوحملوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہوئی تاہم ان حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعدا د میں 46 فیصد جبکہ زخمیوں کی تعداد میں 28 فیصد کمی واقع ہوئی۔

بلوچستان میں قوم پرست‘ فرقہ پرست اور علاقائی اور عالمی دہشت گرد تنظیمیں سرگرم رہیں۔ بلوچستان میں سلامتی کی صورتحال کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پورے ملک میں ہونے والے کل جنگجو حملوں میں سے 43 فیصد اسی صوبے میں ہوئے جبکہ ملک بھر میں ہونے والے 23خودکش حملوں میں سے 10 بھی اسی صوبے میں ہوئے۔ گزشتہ سال سیکیورٹی فوسز نے بلوچستان میں 134 کارروائیاں کیں جن میں 112 جنگجو ہلاک اور 657 مشتبہ جنگجو گرفتار کیے گئے۔ بلوچستان کے بعد سب سے زیادہ گڑ بڑ فاٹا میں رہی جہاں گوکہ جنگجو حملوں کی تعداد میں 14 فیصد کمی دیکھنے میں آئی تاہم 2016ء کے مقابلے میں جنگجو حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 77 فیصد اور زخمیوں کی تعداد میں152 فیصد کا غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آّیا۔ فاٹا میں اغوا کی وارداتوں میں بھی 113 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مجموعی طور پر فاٹا میں 102 جنگجو حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 339 افراد مارے گئے جن میں 206 عام شہری‘ 65 سیکیورٹی فورسز اہلکار اور 68 جنگجو شامل ہیں جبکہ 858 افراد زخمی ہوئے جن میں 639 عام شہری‘ 187 سیکیورٹی فورسز اہلکاراور 38 جنگجو شامل ہیں۔ فاٹا میں گزشتہ ایک سال کے دوران میں سیکیورٹی فورسز کی 58 کارروائیاں ریکارڈ کی گئیں جن میں 84 جنگجو اور سیکیورٹی فورسز کے پانچ اہلکار مارے گئے ۔

فاٹا سے کم ازکم 79جنگجو گرفتار بھی کیے گئے۔ خیبر پختونخواہ میں سیکیورٹی کی صورتحال میں زبردست بہتری دیکھنے میں آئی۔ 2016 ء کے مقابلے میں جنگجو حملوں کی تعداد میں 40 فیصد‘ اموات کی تعداد میں 47 فیصد اور زخمیوں کی تعداد میں 55 فیصد کمی واقع ہوئی۔ پکس کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2017ء میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں جنگجوؤں کے 75 حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 92افراد ہلاک ہوئے جن میں 43 عام شہری‘ 34 سیکیورٹی فورسز اہکار اور 15 جنگجو شامل ہیں جبکہ 175 افراد زخمی ہوئے جن میں 136 عام شہری ‘ اور 39 سیکیورٹی فورسز اہلکار شامل ہیں۔ سلامتی کی صورتحال میں مجموعی بہتری کے باوجود گزشتہ ایک سال کے دوران بلوچستان کے بعد سب سے زیادہ خود کش حملے (چھ حملے) بھی اسی صوبے میں ہوئے۔ سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخواہ میں 103 کارروائیاں کیں جن میں 41 جنگجو ہلاک اور 543 گرفتار کیے گئے۔ سندھ میں گزشتہ ایک سال میں جنگجو حملوں کی تعداد میں تو چالیس فیصد کمی ہوئی تاہم ہلاکتوں کی تعداد میں 84 فیصد اور زخمیوں کی تعداد میں 142 فیصد اضافہ ہوا۔ جنگجوؤں کے 40 حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 112 افراد مارے گئے جن میں 92 عام شہری اور 17 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں جبکہ 303 افراد زخمی ہوئے جن میں 293 عام شہری اور دس سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔ سند ھ میں سال 2017 کے دوران ایک خود کش حملہ بھی ریکارڈ کیا گیا۔

سندھ میں سیکیورٹی فورسز نے جنگجوؤں کیخلاف کم ازکم 98 کارروائیاں کیں جن میں 110 مشتبہ جنگجو ہلاک اور 153 گرفتار ہوئے۔ پنجاب میں جنگجو حملوں کی تعداد میں سات فیصد اضافہ ہواتاہم ہلاکتوں کی تعداد میں 37 فیصد اور زخمیوں کی تعداد میں 41 فیصد کمی ہوئی۔ صوبے میں گزشتہ سال 15 جنگجو حملے ہوئے جن میں 59 افراد ہلاک ہوئے جن میں 34 عام شہری اور 24 سیکیورٹی فورسز اہلکار شامل ہیں ‘ پنجاب میں جنگجوحملوں میں 208 افراد زخمی ہوئے جو سب کے سب عام شہری تھے۔ سیکیورٹی فورسز نے صوبے میں
119کارروائیاں کیں جن میں 105 جنگجو ہلاک اور 298 گرفتار ہوئے ۔ پکس کے اعداد وشمار کے مطابق آزاد کشمیر میں دو جنگجو حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں ایک عام شہری ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں معمولی نوعت کی تین پر تشدد کارروائیاں ریکارڈ کی گئیں جن میں ایک شخص مارا گیا۔جبکہ گلگت بلتستان سے جنگجوؤں کی کوئی متشدد کارروائی ریکارڈ نہیں کی گئی۔ سیکیورٹی فورسز نے آزاد کشمیر میں چار کارروائیوں میں بارہ افراد جبکہ گلگت میں دو کارروائیوں میں چودہ اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے تین کارروائیوں کے دوران چار مشتبہ ا فراد کو دہشت گردی کے ساتھ تعلق کے الزامات پر گرفتار کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے