میاں نواز شریف سے جاتی اُمراءمیں کون ملا؟

شہباز شریف اچانک سعودی عرب کے دورے پر چلے گئے ۔ اُن کو سعودی حکمرانوں نے بلایا اور خصوصی طیارہ بھی بھیجا۔ شہباز شریف اپنی تمام مصروفیات چھوڑ چھاڑ کر فوری سعودی عرب روانہ ہوگئے۔ شہباز شریف کے بعد میاں نواز شریف کو بھی سعودی حکمرانوں نے بلا لیا ۔ نواز شریف کی سعودی عرب جانے سے قبل گھنٹوں پر محیط ایک میٹنگ جاتی اُمراء میں ہوئی۔ اس میٹنگ کے بارے میں ٹی وی چینلز نے خبر دی کہ ملاقات کے لیے آنے والے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مشیر سیکیورٹی امور جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ تھے۔ کہا گیاکہ جنرل جنجوعہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے میاں صاحب کے لیے کوئی اہم پیغام لے کر آئےہیں۔ اس خبر سے تبصرے بھی ہوئے کہ پیغام ممکنہ طور پر کیا ہو سکتا ہے۔

آج مجھے ایک اہم ذرائع سے معلوم ہواکہ جنرل جنجوعہ کی نواز شریف سے کوئی ملاقات ہوئی ہی نہیں بلکہ ملنے والا کوئی اور تھا۔ وہ کون تھا جس نے میاں صاحب سے گھنٹوں لمبی ملاقات کی، وہ کس کے ساتھ آیا اُس کے متعلق مجھے جو بتایا گیا اُس کی جب تک سو فیصد تصدیق نہ ہو جائے اُس کے بارے میں لکھنا مناسب نہیں۔ جو لوگ شریف برادران کا سعودی عرب بلائے جانے کو کسی این آر او سے جھوڑ رہے ہیں وہ ابھی تک محض ایک قیاس آرائی ہے۔ میری ذاتی رائے میں کوئی ایسا این آر او جو جنرل مشرف اور بے نظیر بھٹو شہید کے درمیان ہوا، ممکن نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ جاتی اُمراء میں میاں صاحب کی ملاقات اور سعودی عرب کے دورہ کے نتیجے میں اگر کوئی نہ نظر آنے والی قوت نواز شریف اور اُن کے خاندان کے خلاف برسرپیکار تھی تو اب وہ نیوٹرل ہو جائے گی۔ اگر واقعی ایسا ہی ہوتا ہے تو اس کے بارے میں واضع اشارے آئندہ چند ہفتوں میں سامنے آ جائیں گے۔

سعودی عرب کے حکمرانوں نے شہباز شریف کو کیوں بلایا او ر مقصد کیا ہے، اس کے بارے میں میری ذاتی رائے کے مطابق مقصد این آر او نہیں ہو سکتابلکہ سعودی عرب کے اپنے اندرونی اور بیرونی مسائل ہیں جن کے حل کے لیے انہیں پاکستان کے مدد کی ضرورت ہے۔ سعودی حکمران پاکستان، پاک فوج اور ہماری انٹیلیجنس اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد کرتے ہیں اور مشکل وقت کے لیے پاکستان سے مدد کی امید رکھتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں اپنے سیکورٹی معاملات کے حل کے لیے سعودی عرب کو پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ سعودی حکمرانوں کی میٹنگز انہی حالات کے تناظر میں کچھ عرصہ سے ہو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کو سعودی حکمرانوں نے کس مقصد کے لیے بلایا؟؟ اس کا ممکنہ جواب یہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے سیاسی حالات اور آئندہ انتخابات کے ممکنہ نتائج کے تناظر میں، سعودی عرب یہ خیال کر سکتا ہے کہ شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے مضبوط ترین امیدوار ہیں جن کے ساتھ باہمی تعاون اور سیکورٹی ایشوز کے معاملات پر بات کرنا اس لیے ضروری ہے تا کہ پاکستان سے جس قسم کے تعاون کی سعودی حکمرانوں کو ضرورت ہے اس کے بارے میں کوئی ابہام نہ رہے۔ سعودی حکمرانوں کے ویسے بھی شریف برادران کے ساتھ اچھے روابت ہیں۔ ابھی تک تو سعودیوں کے تعلقات کا محور نواز شریف تھے لیکن بدلتے حالات کے ساتھ وہ شہباز شریف کے ساتھ بہتر understanding پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اب یہ کہ شریف برادران جواب میں سعودی حکمرانوں سے کیا مانگ سکتے ہیں۔ اس بارے میں میرا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ شریف فیملی خادمین حرمین شریفین سے دعا کے ساتھ ساتھ دوا کی بھی درخواست کرسکتے ہیں کہ غیبی قوتوں کے اثرات سے ن لیگ اور شریف فیملی کو محفوظ رکھا جائے۔ ویسے تو غیبی قوتوں کو شہباز شریف سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف سیاست سے ہی مائنس ہو جاتے ہیں تو پھر شہباز شریف آگے کیسے آئیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ ووٹ تو نواز شریف کے ہی ہیں۔ ان حالات میں شریفوں اور ن لیگ کی کوشش بس یہ ہو گی کہ اُن کے معامالات میں مزید خرابی نہ ہو۔ اب حقیقت میں ہوتا کیا ہے، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے